part 1
part 2
part 3
ہمارے کالج والوں نے ننکانہ صاحب نامی گاوں میں موجود ایک گرودوارے جانے کا ٹرپ پلین کیا۔اس سفر کا خیال ہمارے کالج میں تشریف لانے والی ایک عدد نئ استانی نے پیش کیا۔جن کا اسم مبارک مس خوشبو سیال بتایا جاتا ہے۔اس ٹرپ کو اچھے سے سر انجام دینے کے لیے مس خوشبو کے ساتھ ایک سٹوڈینٹ راحت نے بھی خدمات پیش کی۔مثال کے طور پرمس خوشبو نے اُن تمام سٹوڈینٹ کو ارینج کیا جو اس ٹرپ پر جانے کے خواہش مند تھے۔اور ہمارے جانباز سپاہی راحت نے ہمارے لیے ایک بہترین گاڈی کا انتظام کیا۔دیکھنے میں کوسٹر جیسی لگتی تھی۔یاد رہے کہ یہ سفر سن 2006 کی 13 مئ کو ہونا قرار پایا تھا۔جس دن درجہ حرارت 40ڈگری تھا
اگر راحت ہم سب کو بہترین سروس سے نہ نوازتا تو ہم میں سے کسی کو بھی ایک پل کی راحت نہ ملتی۔
خیر پروگرام کچھ یوں ترتیب پایا کہ صبح چھ بجے سب کالج ہوں تاکہ زرا جلدی نکل کر شدید گرمی کا شکار ہونے سے بچا جا سکے اور تمام لوگ ٹرپ انجواے کرنے کے بھی قابل رہ سکے۔وہاں سے واپسی کا وقت 3 بجے کا قرار پایا۔
تو حاضرین میں سلطانہ مصطفٰی بروز ہفتہ کے ٹرپ کے لیے ساری تیاری کر کے الارم لگا کر سو گئ۔صبح ساڈھے پانچ بجے میری آنکھ گھڑی کی اس بیکار آواز سے کھلی جو ہم کو وقت پر بیدار کرتی ہے۔پھر کیا تھا،میں نے بستر سے دوڑ لگا دی۔میری دوڑ کا اختتام کالج کے گیٹ پر ہوا۔کالج کا منظر کچھ یوں تھا کہ کالج کے دروازے مجھ پر بند تھے۔میں نے گھبراہٹ میں مس کو فون کیا۔فون کرنے پر پتہ چلا کہ وہ تو خود ابھی کالج تشریف نہیں لائی ہیں۔یہ سن کر میری جان میں جان آئی۔ورنہ ان چند لمحوں میں میں نے کیا کیا نہ سوچ ڈالا تھا۔مثلا میں لیٹ ہوگئ ہوں،میرا ٹرپ چلا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔پھر میں نے اپنا ہاتھ گیٹ کے ماتھے پر مارا۔{ٹھپ ٹھپ ٹھپ} وہی مخصوص وردی میں ملبوس موٹے سے گیٹ مین نے گیٹ کھولا۔جبکہ اس کی خود کی آنکھیں پوری طرح نہ کھلی تھی۔میں کالج میں داخل ہوئی۔ہر طرف سناٹا تھا کیونکہ میری طرح کوئی بھی اتنا پاگل واقع نہ ہوا تھا کہ وقت پر کالج آتا۔میں نے کالج کا 1 کونہ منتخب کیا تاکہ دوسروں کا انتظار کر سکوں۔خدا خدا کر کے زرا جانا پہچانا چہرا دور سے مسکراتا ہوا دکھائی دیا۔یہ میری دوست سعدیہ تھی۔جس نے پاس آنے پر سلام سے یہ سوال کر ڈالا کہ"ارے تم اور کوئی بھی نہیں"?میں نے اس کو سلام یاد دلاتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں پہلی پاگل میں اور دوسری تم۔اب ہم دونوں دوسروں کا انتظار فرمانے لگے۔سعدیہ اپنے بیگ میں موجود چیزوں کو ترتیب دیتے ہوئے اچانک بولی کہ "ارے میرے پاس تو صرف بسکٹ ہیں اور چپس کا ایک پیکیٹ نہیں"۔اب مجھے بھی یاد آیا کہ میرے اندر بھی ایک بھوکی آتما ہے جو کچھ کھانا چاہتی ہیں۔اب مجھ کو جلدی کالج ٹپک پڑنے پر اور غصہ آنے لگا۔ہاں اب لیکن ایک تبدیلی ضرور واقع ہوئی وہ یہ کہ اب میں دوسروں کا کم اور کنٹین والے کا انتظار زیادہ کرنے لگی۔
ساڑھے سات تک کالج میں بہت سے لوگ آچکے تھے۔جن میں سے بہت سے بھوک کا شکار تھے۔آٹھ بجے کالج میں وہ ہستی تشریف لائی جس کا ہم سب کو بےصبری سے انتظار تھا۔جی ہاں کینٹین کھلی مگر میرا نمبر دیر سے لگا۔جب تک میری پیٹ پوجا ختم ہوئی لوگ کوسٹر پر سوار ہونا شروع ہوگے تھے۔میں نے بھی اپنا بیگ اٹھایا اور کوسٹر کی معمولی سیٹ کو اپنے وزن سے نوازہ۔اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ لوگ تھے زیادہ اور جگہ تھی کم۔سب سے پہلےاساتذہ کو نہایت احترام سے گاڑی پر سوار کروایا گیا۔پھر ہم لڑکیوں کو جگہ دی گئی۔بچے لڑکے تو خیر ان بچاروں کو آدھا سفر بیٹھ کرکرنا تھا اور آدھا کھڑے ہو کر۔اور وہ شاید یہی چاہتے تھے۔ساڑھے آٹھ پر ہماری گاڑی کالج سے روانہ ہوئی۔سفر کے بیس منٹ گزر جانے کے بعد 1 لڑکے نے ہم سب سے یہ سوال کیا کہ "کیا کسی نے سفر کی دعا پڑھی ہے" صرف 4 جواب ہاں میں موصول ہوئے۔
اب میرے سفر نامہ کا بہترین حصہ شروع ہو رہا ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں چند لوگوں کا تعارف کرائے بنا یہ سفر نامہ آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ان کے نام یہ ہیں:
راحت،عمیر،ارسلان،ابوبکر،نوشین،ثنا،آنیکا اور ہمارے سر عمر حمید۔جی یہ وہ لوگ تھے جنہوں نےمل کر باقی سب کو سفر کی بوریت سے محفوظ رکھا اور مشکل سفر جلد کٹتا محسوس ہوا۔
سفر کے 23 منٹ پر سر عمر نے لوگوں میں جوش پیدا کرنے کے لیےایک شور برپا کیا۔یہ شور پانی نہ ہونے کے باعث پیدا ہوا۔مطلب یہ کہ ہر فرد اپنی باری پرکوئی بھی مزاحیہ جملہ کہتا جس کے بعد باقی سب سر عمر کے ہمراہ یہ جملہ کہتے کہ "پانی کے بغیر"۔ان میں سے کچھ جملے رقم کر رہی ہوں
گاڑی کیسے چلے گی? پانی کے بٍغیر
پانی کیسے پیئں گے? پانی کے بغیر
پانی کیسا ہو گا? پانی کے بغیر وغیرہ وغیرہ۔
آج کے لیے اتنا ہی۔کل دوسرے حصہ کے ساتھ پھر حاضر ہوں گی۔اپنی رائے ضرور دیجیے گا۔
اللہ حافظ
Bookmarks