آج بہت دنوں بعد سنی ہے بارش کی آوازآج بہت دنوں بعد کسی منظر نئے رستہ روکا ہےرم جھم کا ملبوس پہن کر یاد کسی کی آئی ہےآج بہت دنوں باد اچانک آنکھ یوں ہی بھر آئی ہےآنکھ اور منظر کی وسعت میں چاروں جانب بارش ہےاور بارش میں دور کہیں ایک گھر ہے جس کیایک ایک اینٹ پر تیرے میرے خواب لکھے ہیںاور اس گھر کو جانے والی کچھ گلیاں ہیںجس میں ہم دونوں کے سائے تنہا تنہابھیگ رہے ہیںدروازے پر قفل پڑا ہے اور دریچے سونے ہیںدیواروں پے جمی ہوئی خاک کی طرح چپ کرموسم ہم کو دیکھ رہے ہیںکتنے بادل ہم دونوں کی آنکھ سے اوجھلبرس برس کر گزر چکے ہیںایک کمی سی ایک نمی سیچاروں جانب پھیل رہی ہےکئی زمانے ایک ہی پل میںباہم مل کر بھیگ رہے ہیںاندر یادیں سُوکھ رہی ہیںباہر منظر بھیگ رہے ہیں . . . !
Bookmarks