”طالبانائزیشن“ یا اسلامائزیشن؟
حال ہی میں کراچی کی طرف سے ایک زبردست دہائی ہوئی ہے کہ وہاں طالبان آ رہے ہیں ۔ وہاں کی ایک بڑی تعداد اردو بولنے والے مہاجرین کی اولاد پر مشتمل ہے۔ ان کے ایک اعتبار سے مسلّمہ لیڈر‘ بلکہ بہت سے لوگوں کے نزدیک ان کے پیرو مرشد الطاف حسین صاحب ہیں جو خود تو لندن میں براجمان ہیں ‘لیکن اُن کا حکم کراچی‘ حیدر آباد اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں چلتا ہے۔ ان کی طرف سے بڑی بلند آواز کے ساتھ دہائی آئی ہے کہ کراچی میں طالبان آ رہے ہیں۔ گویا وہاں پر کوئی حملہ ہونے والا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں لٹھ بردار شریعت نہیں چلے گی‘ شریعت کو زبردستی نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ انہوں نے کھلم کھلا اپنے پیروکاروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں لائسنس بنوانے اور اسلحہ خریدنے کی ترغیب دی ہے۔ گویاکراچی میں بدامنی بلکہ خانہ جنگی کا شدید خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت کے دو اہم ذمہ داران نے نوٹس لیا ہے۔ میں نے سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار علی مرزا کا بیان سنا ہے کہ یہاں ایسا خطرہ محسوس تو کیا جا رہا ہے لیکن یہ خطرہ حقیقی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کا کام تو یہی ہے کہ خوف کو ختم کیا جائے ۔ اسی طرح سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ صاحب نے بھی یہی بات کہی ہے۔
اِس وقت اگر کچھ پختون پاکستان کے شمالی علاقوں سے آ کر کراچی کی طرف آباد ہو رہے ہیں تو یہ اس بات کافوری نتیجہ ہے کہ ان کے علاقے میں بدامنی اور دہشت گردی ہے۔ وہاں پر کچھ غنڈہ گردی بھی ہو رہی ہے۔ مختلف قوتیں جن کے بارے میں مَیں بعد میں تجزیہ کر کے بیان کروں گا‘ وہاںبرسرپیکار ہیں۔ پاکستان آرمی کا ایکشن بھی ہو رہا ہے۔ پھر یہ کہ امریکہ کے جہازآ کر بمباری کرتے ہیں‘ میزائل برساتے ہیں۔ لہٰذا وہاں زندگی مخدوش ہو گئی ہے۔ان علاقوں کے رہنے والے ایسے حالات میں وہاں کیسے رہیں! چنانچہ وہ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کا سب سے آسان انتخاب کراچی ہے‘ اس لیے کہ وہاں ایک بہت بڑی تعداد میں‘ جوکہ پندرہ بیس لاکھ سے کم نہیں ہے‘ پختون آباد ہیں۔ ان کی اپنی بستیاں ہیں‘ علیحدہ گڑھیاں ہیں۔ وہ سب کے سب محنت کش ہیں۔ ان کا کام زیادہ تر ٹرانسپورٹ کا ہے۔ یہ بسیں‘ منی بسیں‘ رکشا‘ ٹیکسی چلانے والے لوگ ہیں۔ ان کا تعلق وزیرستان کے مختلف علاقوں سے ہے۔ جن علاقوں کے لوگ اس وقت پریشان ہو کر نقل مکانی کر رہے ہیں‘ چونکہ ان کے رشتہ دار کراچی میں موجود ہیں اس لیے وہاں ان کو آسانی کے ساتھ پناہ مل سکتی ہے‘ کہیں ٹکنے کی جگہ مل سکتی ہے۔ چنانچہ وہ آ رہے ہیں ۔ سندھ حکومت کے ان دونوں حضرات نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ لوگ آ رہے ہیں تو پاکستان میں ہی آ رہے ہیں‘ پاکستان کے ایک علاقے سے پاکستان ہی کے دوسرے علاقے میں آ رہے ہیں‘ کوئی باہر سے نہیں آ رہے اور نہ کسی غیر ملک میں جا رہے ہیں۔ مجھے ذاتی طو رپر ان کے یہ الفاظ بہت اچھے لگے ہیں کہ کراچی کی سرزمین پر ہر پاکستانی کا حق ہے۔ کراچی تو گویا پورے پاکستان کی ’دولت مشترکہ‘ ہے۔ یہ دونوں باتیں اچھی ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک بہت اہم بات انہوںنے کہی ہے اور آگے چل کر وہ میری گفتگو کا مرکزی مضمون بنے گا‘اوروہ یہ ہے کہ ”طالبانائزیشن اور ہے‘ اسلامائزیشن اور ہے“۔ یہ بات اپنی جگہ پر بڑی اہم ہے اور اس کے نتائج کو سمجھنا اور قبول کرنا بہت ضروری ہے۔
طالبان کون؟ وجود میں کیسے آئے؟
اس پس منظر کو بیان کر کے سب سے پہلے میں آپ کے سامنے یہ معاملہ لانا چاہتا ہوںکہ یہ طالبان کون ہیں؟ کہاں سے آ گئے ہیں؟ تیس سال پہلے تک تو اِن کا کوئی تذکرہ نہیں تھا‘ سوائے اس کے کہ افغانستان میں دینی مدارس کے طالب علموں کو طالبان کہہ دیا جاتا تھا۔ طالبان ایک سیاسی یا عسکری قوت کی حیثیت سے کیسے منظر پر آئے‘ اس کے لیے سرسری طور پر افغانستان کی تاریخ کے پچھلے ۰۳‘۵۳ سال کا جائزہ لینا ہو گا۔ افغانستان میں کئی سو سال سے ایک بادشاہی نظام اکثر و بیشتر بڑے اطمینان اور امن کے ساتھ چل رہا تھا۔افغانستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی عظیم اکثریت بڑے شدید مذہبی مزاج کی تھی۔ نماز روزہ اور پردہ و حجاب ان کے کلچر میں شامل تھا۔ ان کے ہاں ان چیزوں کے مذہب ہونے کا پہلو بعد میں آتا ہے‘ یہ ان کے کلچر کا جزو تھا۔اس کے برعکس بڑے شہر خاص طور پر کابل‘ بادشاہی نظام کے تحت پوری طرح مغربیت کے رنگ میں رنگے جا چکے تھے۔ ایک دفعہ جب ظاہر شاہ پاکستان آئے تھے اور ان کے ساتھ ان کی بیگم ملکہ¿ افغانستان بھی تھیں تو وہ سکرٹ پہنے ہوئے تھیں‘ ان کی پنڈلیاں ننگی تھیں۔ اس پر لوگ بڑے حیران ہوئے تھے ۔ چنانچہ واقعہ یہی ہے کہ کابل پورے طور پر مغربی طرزِ معاشرت میں ڈھل چکا تھا۔ ا س کیفیت میں اس وقت تبدیلی آئی جب سردار داﺅد خان نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹا۔ اگرچہ ان کا جھکاﺅ اور رجحان روس کی طرف زیادہ تھا‘ تاہم وہ کوئی خالص نظریاتی کمیونسٹ نہیں تھے۔ اس کے بعد افغانستان میں یکے بعد دیگرے کئی حکمران قتل ہوئے۔سردار داﺅد کو کسی نے قتل کیا ‘ اس کو کسی اور نے قتل کیا ‘ پھر کسی اور نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ اس کے خلاف اسلامی قوتوں کی طرف سے مزاحمت ہوئی‘ کیونکہ اب کمیونزم کم سے کم افغانستان کے شہری علاقوں میں مضبوط قدم جما چکا تھا۔ پارٹیاں اگرچہ دو تھیں‘ یعنی پرچم اور خلق‘ لیکن ان دونوں کے درمیان فرق وہی تھا جو روسی انقلاب میں مانشویک اور بالشویک کا تھا‘ یعنی پارٹیاں دو لیکن نظریہ ایک‘ بالفاظِ دیگر کمیونزم ایک‘ قیادتیں دو۔ اسی طرح افغانستان میں دوپارٹیاں تھیں۔ اقتدار کے لیے ان کی آپس میں جنگ بھی جاری تھی‘ لیکن کمیونزم پر وہ بالکل پوری طرح متفق تھے۔
اب یہاں پاکستان میں اس کا جوردّعمل ہوا‘ اس کو سمجھئے۔ ابھی جبکہ وہ تحریک شروع ہوئی ہی تھی اور روسی فوجیں ابھی نہیں آئی تھیں‘ گویا یہ افغانستان کے اندر ایک لوکل phenomenonتھا‘ سب کچھ melting potکے اندر تھا ‘تو اُس وقت بھی مسلمانوں کے اندر مذہبی مزاج کے لوگوں میں کمیونزم کے خلاف ایک ردّعمل شروع ہوا۔ ان میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کا حصہ بہت زیادہ تھا۔ یہ لوگ یا تو پاک و ہند کی جماعت اسلامی کے یا پھر عالم عرب کے الاخوان المسلمون کے زیر اثر تھے۔ انہی کے لیڈروں میں گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود بھی تھے۔ ان دونوں کی بڑی گہری دوستی تھی اور یہ گویا کامریڈز تھے ۔ پھر استاد ربانی اور عبدالرسول سیاف بھی تھے۔ اس قسم کے لوگوں نے مزاحمتی تحریک شروع کی تو یہاں بھٹو صاحب نے اس وقت صحیح قدم اٹھایا اور ان میں سے بعض لوگوں کو دعوت دی۔ وہ آئے اور دارالحکومت میں بھٹو صاحب کے مہمان رہے۔ بھٹو صاحب نے ان کی پیٹھ تھپکی کہ ٹھیک ہے کوشش کرو۔ اندازہ ہے کہ کچھ نہ کچھ انہیں مدد بھی دی ہو گی‘ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اگر افغانستان میں کمیونزم آ گیا اور روس قابض ہو گیا تو پھر اس کا اگلا ہدف پاکستان ہوگا‘ زار ازم کو توسیع دینے کے لیے روس کا یہ صدیوں پرانا خواب ہے۔ سائبیرین ریچھ چاہتا تھا کہ کسی طریقے سے افغانستان اور پاکستان کو روندتا ہوا بحیرئہ عرب اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک پہنچ جائے۔ لہٰذا اگر افغانستان میں اس کے قدم جم جاتے تو اس کا اگلا ہدف پاکستان ہوتا! یہ صورت حال تھی جس میں بھٹو صاحب نے ایک بالکل صحیح قدم اٹھایا تھا۔
بعد میں جب روسی فوجیں آ گئیں تو ایک زبردست مزاحمت شروع ہوئی۔ درحقیقت اس مزاحمتی تحریک کا عنوان ”جہاد فی سبیل الحریت“ ہونا چاہیے تھا۔ اس کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ آزادی تھی‘ اس لیے کہ افغان قوم غلام رہنے کی عادی نہیں ہے۔ وہ ذہنی اور جذباتی طور پر اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتی۔ پوری افغان تاریخ اس کی گواہ ہے۔ جب روس کے خلاف جنگ جاری تھی اور افغانستان میں جہاد ہو رہا تھا تو ایک دفعہ انگلستان کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر پاکستان کے دورے پر آئی تھیں۔ انہوں نے طورخم کے مقام پر لوگوں سے ایک خطاب کیا تھا‘ جس میں یہ بڑا تاریخی جملہ کہا تھاکہ :
"We learnt our lesson and the Russians will also soon learn their lesson."
یعنی افغانستان کے بارے میں ہم نے تو سبق سیکھ لیا تھا۔ ہم نے بار بار فوج کشی کی اور اسے فتح کیا‘ لیکن یہاں پر اپناقبضہ برقرار نہیں رکھ سکے۔ اسی طرح بالفرض روس نے یہاں قبضہ کر بھی لیا تو وہ یہاں رہ نہیں سکے گا۔ یہ سبق ہم نے تو سیکھ لیا ہے‘ روسی بھی سیکھ لیں گے!
بہرحال اس موقع پر جو صورت حال پیدا ہوئی‘ اس میں ایک نیا عنصر بھی شامل تھا جسے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ یہ وہ دَور تھا جب پورے عالمِ اسلام میں احیائے اسلام اور نفاذِ شریعت کا ایک جذبہ پروان چڑھ رہا تھا۔ یہ جذبہ اُس وقت شروع ہوا جب یورپی ممالک کی نوآبادیاتی حکمرانی کا بستر طے ہونا شروع ہوا۔جیسے کوئی آدمی نیند سے اٹھے تو اسے یاد آتا ہے کہ میں نے کوئی خواب دیکھا تھا‘ اسی طرح جیسے جیسے مسلمان ممالک آزاد ہونا شروع ہوئے تو ان کو یاد آیا کہ ہمارا بھی ایک نظام ہوتا تھا۔ انگریزوں ‘ ولندیزیوں‘ فرانسیسیوں‘ اطالویوں یا ہسپانویوں کے آنے سے پہلے ہمارا ایک نظام تھا تو کیوں نہ اب ہم اس نظام کو دوبارہ قائم کریں! یہ ایک جذبہ تھا‘ اگرچہ مبہم سا! آج کے دور میں اسلامی نظام کیسا ہو گا‘ اس کے کوئی واضح تصورات نہیں تھے‘ لیکن جذبہ بہرحال موجود تھا۔ اسی کو علامہ اقبال نے ”ابلیس کی مجلس شوریٰ “میں ابلیس کی زبان سے کہلوایا ہے کہ مجھے دنیا میں جمہوریت سے کوئی اندیشہ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ :
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر!
یہ تو ہم نے خود ہی بادشاہت کو ایک اور لبادہ اوڑھا کر اسے جمہوریت کا رنگ دے دیا ہے اور اسے ”شخصی حاکمیت“ کے بجائے ”عوامی حاکمیت“ اور ”اجتماعی حاکمیت“ کی صورت دے دی ہے۔ غیر اللہ کی حاکمیت کا شرک اور کفر تو جوں کا توں موجود ہے۔ اسی طرح مجھے اشتراکیت سے بھی کوئی اندیشہ نہیں ہے:
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار ‘ آشفتہ مغز ‘ آشفتہ ہُو
ابلیس اپنے شیطانی نظام کے لیے کسی کو اگر خطرہ سمجھ رہا ہے تو وہ اُمت مسلمہ ہے ۔
ہے اگر کوئی خطر مجھ کو تو اِس اُمت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
یہ جذبہ اور تڑپ اگرچہ پورے عالم اسلام میں تھی‘ لیکن کہیں بھی اس کی کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی
Bookmarks