مولانا خالد سیف الله ربانی
اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں مسلمان ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں ، اشتراکی نظام کی تباہی کے بعد پوری دنیا نے اسلام کے خلاف کمر کس لی ہے او راس مقصد کے لیے مشرق ومغرب کے روایتی حریف ورقیب بھی ایک دوسرے سے ہاتھ ملا چکے ہیں ، خود ہمارے ملک میں جن لوگوں کو دریا کے دو کنارے کہا جاتا تھا انہوں نے بھی اسلام او رمسلمانوں کے مقابلہ میں اپنے فاصلے ختم کر لیے ہیں ، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے دو باتیں نہایت ضروری ہیں ، ایک اتحاد واتفاق ، دوسری حکمت وتدبیر۔
اتحاد واتفاق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امت میں کوئی اختلاف ہی باقی نہ رہے، اختلاف رائے پہلے بھی رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا اور اس کے باقی رہنے ہی میں خیر ہے ، لیکن اختلافِ فکر نہ اتحاد عمل میں مانع ہے، نہ باہمی توقیر واحترام میں ، اگر ہم نے اس بات کو نہیں سمجھا تو یہ ایسی بدبختی کی بات ہو گی کہ شاید اس کی تلافی ممکن نہ ہو اور تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی مسلمانوں کے باہمی اختلاف کچھ تو عقائد میں ہیں اور زیادہ تر عملی احکام میں ، عقائد میں بعض اختلاف یقینا گمراہی کے قبیل سے ہیں ، لیکن جو لوگ اہلِ سنت والجماعت کی راہسے منحرف ہوں ان کو بھی کافر کہنے میں سلف صالحین نے بہت احتیاط کا ثبوت دیا ہے ، چناں چہ حضرت علی رضی الله عنہ نے خوارج کو باوجود ان کے فساد فکر وعمل کے کافر قرار دینے سے اجتناب فرمایا، معتزلہ سے دسیوں اعتقادی مسائل میں اختلاف کے باوجود اہل علم نے ان کی تکفیر سے گریز کیا اور قدریہ وجبریہ وغیرہ کا شمار تقدیر کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت سے سخت اختلاف کے باوجود بھی مسلمان فرقوں میں کیا گیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سلف کے اختلاف رائے میں کس قدر اعتدال تھا!
خود اہلِ سنت والجماعت کے درمیان بھی بعض اعتقادی مسائل میں اختلاف رہا ہے اور یہ عہدِ صحابہ سے ہے ، حضرت عبدالله بن عباس شب معراج میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے باری تعالیٰ کو دیکھنے کے قائل تھے ، حضرت عائشہ کو اس سے انکار تھا، بعض صحابہ اس کے قائل تھے کہ مردہ پر اس کے اہل وعیال کے رونے سے عذاب ہوتا ہے ، حضرت عائشہ اس کی تردید کرتی تھیں، بعض صحابہ کی رائے تھی کہ مردے سنتے ہیں او ربعض صحابہ اس کے قائل نہیں تھے ، یہ اختلاف صحابہ کے بعد بھی صدیوں اہلِ علم، بلکہ عوام کے درمیان بھی زیرِ بحث رہا۔
بعد کے ادوار میں جب اسلام کے اعتقادی تصورات علم کلام کے نام سے مرتب کیے گئے تو اصولی مسائل میں اتحاد کے باوجود ان عقائد کی تشریح وتوضیح اور تعبیر وتفہیم میں خاصا اختلاف پیدا ہوا اور اشعری، ماتریدی او رحنبلی دبستان فکر ابھرے ، لیکن اس اختلاف نے کبھی جھگڑے اور نزاع کی صورت اختیار نہیں کی، لوگ ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرتے، ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ، ان کے علم وفضل، ورع اور تقویٰ کا برملا اعتراف کرتے، علامہ ابن تیمیہ نے اس طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلف اس بات پر متفق تھے کہ اس کی وجہ سے کسی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔”اتفقوا علی عدم التکفیر بذلک“․ (مجموعة الفتاوی:495/12)
دوسری قسم کا اختلاف وہ ہے جو فقہی مسائل میں پیدا ہوا ہے ، یہ اختلاف عہدِ صحابہ سے ہے اور جواختلاف صحابہ کے دور میں رہا ہے اس کے باقی رہنے میں خیر ہی ہے نہ کہ شر، غور کیا جائے تو اس اختلاف کو باقی رکھنا خود الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا منشا ہے اور یہ بات ادنیٰ غور وتامل سے معلوم ہو سکتی ہے، مثلاً الله تعالیٰ نے وضو میں سر کا مسح کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے ﴿وامسحوا برؤسکم﴾ یہاں لفظ ”ب“ استعمال کیا گیا ہے، ”ب“ کے معنی عربی زبان میں بعض یعنی کچھ حصہ کے بھی ہوتے ہیں اور ”ب“ زائد بھی ہوتی ہے ، پہلی صورت میں معنی ہو گا سر کے بعض حصہ کا مسح کر لو اور دوسری صورت میں معنی ہو گا کہ پورے سرکا مسح کرو، چناں چہ بعض فقہاء پورے سر کے مسح کو ضروری قرارا دیتے ہیں اور دوسری رائے کے مطابق سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہو گا، ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کے علم میں”ب“ کے یہ دونوں معنی پہلے سے موجود ہیں ، اگر الله چاہتے تو بعض کا لفظ استعمال فرماتے اورمتعین ہو جاتا کہ پورے سر کا مسح ضروری نہیں ، یا ”کل“ کا لفظ ارشاد فرماتے اور یہ بات پوری طرح بے غبار ہو جاتی کہ پورے سر کا مسح کرنا فرض ہے، لیکن خدائے علیم وخبیر نے اس صراحت کے بجائے اپنی کتاب میں ایک ایسا لفظ ذکر فرمایا جس میں دو معنوں کا احتمال ہے ، اس سے ظاہر ہے کہ ایسے مسائل میں اختلاف رائے کا باقی رہنا خود منشائے ربانی ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں عورت کی عدت کے لیے تین”قرء“ گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ،” قرء“ کے معنی حیض کے بھی ہیں او رزمانہ پاکی کے بھی ، اسی لیے بعض فقہاء نے تین حیض مدت قراردی ہے او ربعض نے تین پاکی ، ظاہر ہے کہ ” قرء“ کے دونوں معانی الله تعالی کے علم محکم میں پہلے سے تھے ، اگر الله تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا کہ احکام شرعیہ میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو تو قرآن میں بجائے ” قرء“ کے صریحاً حیض یا طہر کا لفظ استعمال کیا جاتا، یہی صورت حال احادیث نبویہ میں بھی ہے ، مثلا آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حالت اغلاق کی طلاق واقع نہیں ہوتی ، اغلاق کے معنی جنون وپاگل پن کے بھی ہیں اور اکراہ ومجبور کے بھی ، چناں چہ اپنے اپنے فہم کے مطابق بعضوں نے ایک معنی کو ترجیح دی ہے او ربعضوں نے دوسرے معنی کو ، حالاں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم افصح العرب یعنی عرب کے سب سے زیادہ فصیح شخص تھے ، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم چاہتے تو ایسی واضح تعبیر اختیار فرماتے کہ ایک ہی معنی متعین ہو جاتا، دوسرے معنی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ایک ہی واقعہ میں مختلف مواقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے مختلف عمل ثابت ہے ، جیسے نماز ہی کو لے لیجیے کہ تکبیر تحریمہ میں کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے کانوں تک ہاتھ اٹھایا، کبھی مونڈھوں تک او رکبھی ان دونوں کے درمیان، دونوں ہاتھ کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابتدا نماز ہی میں اٹھائے ہیں ، کبھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی، کبھی دو سجدوں کے درمیان اور دوسرے مواقع پر بھی، ہاتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی ناف کے نیچے باندھے ہیں او رکبھی ناف سے اوپر ، آمین کبھی آہستہ کہی ہے او رکبھی زور سے، قعدہ میں کبھی پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے ہیں او رکبھی کولھوں پر ، عیدین میں کبھی چھ تکبیرات زوائد کہی ہیں کبھی اس سے زیادہ ، یہ خدا نخواستہ تناقض اورتضاد نہیں، بلکہ اس کا مقصد توسع اور فراخی ہے۔
یہ اختلاف رائے چنداں بُرا نہیں، اسی لیے علامہ ابن قدامہ نے اپنی شہرہ آفاق تالیف” المغنی“ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ فقہاء کا اتفاق حجت قاطعہ ہے او راختلاف ”رحمت واسعہ، ”اتفافھم حجة قاطعة اختلافھم رحمة واسعة“ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے پوتے مشہو رفقیہ قاسم بن محمد فرمایا کرتے تھے کہ الله تعالیٰ نے صحابہ کے اختلاف سے فائدہ پہنچایا ہے کہ انسان ان میں سے کسی کی رائے پر عمل کر لے تو اسے خیال ہو گا کہ اس میں گنجائش ہے او راس سے بہتر شخص نے اس پر عمل کیا ہے ۔ ( جامع بیان العلم: لابن عبدالبر:80/2)
طلحہ بن مصرف کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان کے سامنے فقہاء کے اختلاف کا ذکر کیا جاتا تو فرماتے، اسے اختلاف کا نام نہ دو، بلکہ اسے فراخی او رگنجائش کہو ، لاتقولوا الاختلاف، ولکن قولوا: السعة․“ (حلیة العلماء:119/5)
علامہ ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے کہ ایک صاحب نے فقہاء کے اختلاف کی بابت ایک کتاب تالیف کی۔ تو امام احمد نے فرمایا کہ اس کو ”کتاب ِ اختلاف“ کا نام نہ دو بلکہ اسے وسعت وفراخی کی کتاب کہو ۔ ”لا تسمہ کتاب الاختلاف، ولکن سمہ کتاب السعة۔“ ( مجموعة الفتاوی:79/30)
یہی وجہ ہے کہ فقہاء کے درمیان یہ اختلاف کبھی باہمی توقیر واحترام اور ان کے مرتبہ ومقام کے اقرار واعتراف میں مانع نہیں ہوتا تھا، امام اوزاعی شام کے مشہور فقیہ ہیں ، امام ابوحنیفہ کے بارے میں انہیں بعض غلط فہمیاں تھیں، چناں چہ اس سلسلہ میں امام صاحب کے شاگرد امام عبدالله بن مبارک سے انہوں نے کچھ دریافت کیا ، ابن مبارک نے حکمت سے کام لیتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور اگلے روز امام صاحب سے سنے ہوئے کچھ مسائل کو تحریرکرکے اس پر شیخ ثابت بن نعمان ،جو امام صاحب کا اصل نام تھا اور جس سے عام طور پر لوگ واقف نہیں تھے، تحریر فرما کرامام اوزاعی کو پیش کیے ، امام اوزاعی پڑھ کر بہت متاثر ہوئے او رابن مبارک سے ان مضامین کی بہت تعریف کی ، ابن مبارک نے بتایا کہ یہی اصل میں امام ابوحنیفہ ہیں، پھر جب حج کے موقع پر امام ابوحنیفہ او رامام اوزاعی دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی اورامام صاحب سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو امام اوزاعی نے برملا اعتراف فرمایا کہ مجھے اس شخص پر ان کی کثرت علم او ر وفور عقل کی وجہ سے رشک آیا، میں الله سے مغفرت کا طلب گار ہوں ، میں ان کے بارے میں نہایت واضح غلط فہمی میں مبتلا تھا، مجھے ان کے بارے میں جو کچھ بات پہنچی ہے ، یہ تو اس کے بالکل برخلاف ہیں اور ابن مبارک کو ہدایت فرمائی کہ ان کا ساتھ نہ چھوڑو۔ (مناقب ابیحنیفہ: للکردری،45)
اس سلسلہ میں امام مالک اور امام لیث کی باہمی مراسلت اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کی رعایت کے بارے میں خاص کر، اس دور کے اہلِ علم کے لیے پڑھنے کی چیز ہے ، جس سے غور وفکر کا ایک نیا منہج سامنے آتا ہے، امام شافعی کے ایک شاگرد یونس بن عبدالاعلیٰ صدفی ہیں، ان کا ایک بار اپنے استاذ امام شافعی سے ایک مسئلہ میں بھی مباحثہ ہو گیا اور دونوں کسی ایک رائے پر متفق نہ ہو سکے ، پھر جب امام شافعی کی ان سے ملاقات ہوئی تو امام صاحب نے ہاتھ تھاما اور فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہیں کہ گوایک مسئلہ میں بھی ہمارا اتفاق نہ ہو، لیکن پھر بھی ہم بھائی بھائی بن کر رہیں؟”ألا یستقیم أن نکون إخوانا وإن لم نتفق فی مسئلة؟“ ( سیر اعلام النبلاء16/100)یہ تھا ہمارے سلف صالحین کا طرز اختلاف!
Bookmarks