ھم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ھے رقم کرتے رھیں گے

اور بھی دکھ ھیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ھیں وصل کی راحت کے

دل ناامید تو نہیں ناکام ھی تو ھے
لمبی ھے غم کی شام مگر شام ھی تو ھے

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
'
'آپ کی یاد آتی رہی رات بھر"
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں