کالی کالی زلفوں کے پھندے نہ ڈالو
ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو

آپ اس طرح تو ہوش اڑایا نہ کیجیے
یوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیے

نہ چھیڑو ہمیں ہم ستاۓ ہوۓ ہیں
بہت زخم سینے پہ کھائے ہوئے ہیں
ستم گر ہو تم خوب پہچانتے ہیں
تمہاری اداوں کو ہم جانتے ہیں

دغا باز ہو تم ستم ڈھانے والے
فریب محبت میں الجھانے والے
یہ رنگین کہانی تمھی کو مبارک
تمہاری جوانی تمھی کو مبارک
ہماری طرف سے نگاہیں ہٹا لو

ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو

سنبھالو ذرا اپنا آنچل گلابی
دیکھاو نہ ہنس ہنس کے آنکھیں شرابی
سلوک ان کا دنیا میں اچھا نہیں ہے
حسینوں پہ ہم کو بھروسہ نہیں ہے
اٹھاتے ہیں نظریں تو گرتی ہے بجلی
ادا جو بھی نکلی قیامت ہی نکلی
جہاں تم نے چہرے سے آنچل ہٹایا
وہی اہل دل کو تماشہ بنایا

خدا کے لیے ہم پر ڈورے نہ ڈالو
ہمیں زندہ رہنے دو اے حسن والو

نصرت فتحِ علی خان