اسے کہنا ستمبر جا رہا ہے

شامیں سہانی لگنے لگی ہیں
دھوپ کی تپش ٹھنڈی ہو رہی ہے
پرندوں کی ہحرت ۔۔۔۔ پَر تول رہی ہے
دل بے وجہ اداس رہنے لگا ہے

ہر ہر آ ہٹ پہ چونکتا ہے
انگوروں کے پتے لال ہوکے جھڑنے لگے ہیں

بادل ، بارش ، کالی گھٹا شرارت چھوڑ چکی ہیں
ہوا میں دھوپ کی آ میزش اور ساون کی نمی ہے

گلاب تھک رہے ہیں
رانی ، راجہ بھی آ نکھیں موندھ چکے
موسمی پودے کیاریوں میں ڈھ رہے ہیں
شاید نئی پنیریاں لگانے کا موسم آ گیا ہے

کہ ستمبر جا رہا ہے ۔۔۔!