جھٹک نہ یاد کو میری سوار رہنے دے
چاہنے والے کا کچھ تو ادھار رہنے دے

سفر کی کوئی نشانی تو دکھانی ہے اسے
پڑا جو منہ پر یوں کر غُبار رہنے دے

شناسائی کا رشتہ تو کوئی بیچ میں رکھ
تعلق تھوڑا سا ہی سہی استوار رہنے دے

میرے حق میں گواہی ہے میرے دشمن کی
پھر تو یوں کر کہ مجھے گنہگار رہنے دے

موسم ہجر ہے محبت کے بعد کا موسم
یہ میری دیکھی ہوئی ہے بہار رہنے دے

اسی بہانے سے آ جاتے ہیں ملنے دوست ولی
مجھے مسیحا میرے یونہی بیمار رہنے دے