Results 1 to 10 of 10

Thread: ahme faraz

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    szaib's Avatar
    szaib is offline Senior Member+
    Last Online
    23rd December 2009 @ 01:12 AM
    Join Date
    19 Sep 2008
    Age
    34
    Posts
    339
    Threads
    70
    Credits
    1,045
    Thanked
    0

    Post ahme faraz


    سوال: فراز صاحب اب لکھنے کا کیا عالم ہے؟
    فراز: زیادہ تو میں کبھی بھی نہیں لکھتا تھا۔ کبھی لکھنے پہ آتے ہیں تو دو چار چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں،(in one span) کبھی چھ چھ مہینے کچھ نہیں لکھا جاتا، زبردستی نہیں کرتے، طبیعیت کے ساتھ اور شعر کے ساتھ۔ تو وہی میرے لکھنے کی رفتار ہے جو تھی۔
    سوال: کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کیوں لکھتے ہیں؟
    فراز: (سوچتے ہوئے) یہ تو، ایسے ہے، اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ پوچھیں کہ سانس کیوں لیتے ہو۔ اب تو یہ میری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ شروع میں تو شاید کوئی خیال بھی نہیں تھا لیکن جب اس بیماری نے اپنی گرفت میں لیا تو اب نہ یہ جان چھوڑتی ہے اور نہ ، بقول غالب کے ’نہ پھندا ٹوٹتا ہے نہ جان نکلتی ہے‘۔
    سوال: لیکن جب آپ نے لکھنا شروع کیا تھا اور پہلی چیز جو آپ نے لکھی تھی کیا وہ آپ کو یاد ہے؟
    فراز: ہاں یاد ہے، اس لیے کہ بہت بچپن کا واقعہ ہے اس لیے بھول نہیں سکتا۔ میں نویں سے دسویں میں تھا اور میرے بڑے بھائی محمود دسویں سے کالج میں داخل ہوئے تھے تو والد صاحب ہمارے لیے کچھ کپڑے لائے تھے۔ اس کے لیے تو سوٹ لائے اور میرے لیے کشمیرے کا پیس کوٹ کے لیے لے آئے، تو وہ مجھے بالکل کمبل سا لگا۔ چیک تھا، آج کل تو بہت فیشن ہے لیکن اس وقت وہ مجھے کمبل سا لگا اور میں نے ایک شعر لکھا جو یہ تھا:
    سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
    لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے
    تو بعد میں یہ میرا بنیادی شعر اس اعتبار سے بھی ہوا کہ کلاس کا جو فرق تھا وہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا اور جب ہم فیملی سے ہٹ کر دنیا کے اور مسائل میں آئے تو پتہ چلا کہ بڑا کنٹراڈکشن (تضاد) ہے تو اسی طرح شاعری بھی میں نے شروع کی، دو طرح کی۔ ایک تو اسی زمانے میں وہ بھی ہوا جسے عشق کہتے ہیں اور ایک یہ بلا بھی تھی۔
    خوش ہو اے دل کہ تجھے ایک بلا اور لگی
    تو اس طرح میری زندگی دو چیزوں کے گرد گھومتی رہی۔ پھر ہم سوشلزم کی تحریکوں میں رہے، کمیونزم اور کیپیٹلزم پڑھا۔ کالج میں جب تھے تو جب سے ہی پڑھنا شروع کیا۔ پھر کمیونسٹ لیڈر تھے رائٹر بھی تھے نیاز احمد صاحب، تب تک ہمیں کچھ سمجھ نہیں تھی کہ کمیونسسٹ کیا ہوتے ہیں۔ ہم شام کو نیاز حیدر کے پاس جا کر بیٹھتے تھے۔ وہ شام کو اخبار بیچتے تھے اور بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ تو ہمیں لگا کہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہوتے ہیں۔ خیر پھر وہ انڈیا چلے گئے۔ اس کے بعد ہم ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن میں کوئی ڈسپلنڈ (منظم) آدمی نہیں تھا، جلسہ ہوتا تھا تو میں اس وقت پہنچتا تھا جب جلسہ ختم ہونے والا ہوتا حالانکہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ فارغ بخاری اس وقت سیکرٹری تھے اور رضا ہمدانی وغیرہ تھے۔ اور مجھے اس لیے جوائنٹ سیکرٹری بنایا گیا تھا کہ نوجوان ہے تو انرجیٹک ہو گا۔ اس کے بعد ریڈیو ملازمت کر لی اس میں بھی سیکھا بہت کچھ۔ میری پہلی اپائنٹمنٹ سکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی، کراچی میں۔
    سوال: تو آپ نے ملازمت شروع کی کراچی سے تو اس زمانے میں وہاں اور کون کون لوگ تھے؟
    فراز: وہاں بڑے بڑے لوگ تھے اس وقت، ارم لکھنوی، سیماب اکبر آبادی اور شاہد احمد دہلوی، اور میں تو اردو بول بھی نہیں سکتا تھا اس زمانے تک، لکھ لیتا تھا ٹھیک ٹھاک لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ کراچی جانے سے پہلے تو ادھر ادھر ہم اردو میں بات ہی نہیں کرتے تھے تو جب کراچی پہنچا تو اکثر تو میں چپ رہتا تھا۔ یا ہاں ہوں ہاں کرتا تھا۔ پھر کراچی میں والدہ یاد آتی تھی۔ دن میں سکرپٹ لکھتے تھے اور رات میں والدہ کو یاد کر کے روتے تھے۔ ہم نے سب کی منت زاری کی اور کہا کہ ہم نہیں رہ سکتے، ہم واپس جاتے ہیں۔ تو اس طرح ہمارا ٹرانسفر کر دیا گیا۔ پشاور میں ان دنوں افضل اقبال صاحب تھے ڈائریکٹر پھر ن م راشد آگئے ڈائریکٹر ہو کر۔ تو انہوں نے کہا کہ خالی بیٹھے رہتے ہو پڑھنا کیوں چھوڑا تم نے، یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ یہیں بیٹھ کے کرو۔ کالج ختم کر کے آؤ جو لکھنا ہے وہ گھر جا کر بھی لکھ سکتے ہو۔ تو اس طرح ہم نے کالج جوائن کیا۔ پھر ایم بھی کیا۔
    سوال: ایم اے آپ نے کہاں سے کیا؟
    فراز: پشاور یونیورسٹی سے۔ اسی زمانے میں میں پروڈیوسر ہو چکا تھا لیکن جب ایم اے کر لیا تو لیکچرر شپ کی آفر آ گئی۔ مجھے پڑھانا بہت پسند تھا تو پشاور یونیورسٹی چلے گئے۔پتا نہیں کیسا پڑھاتا تھا لیکن دوسرے سبجیکٹ کے لڑکے بھی کلاس میں آ جاتے تھے۔ مجھے ٹیچنگ سے واقعی محبت تھی لیکن ایک روز میں نے دیکھا کہ ایک سینئر پروفیسر، پورا نام تو اب ان کا یاد نہیں، خلجی صاحب کو جنہیں اسلامیہ کالج کا پرنسپل بنا دیا گیا تھا، بڑا پریسٹیجس (پُر وقار) کالج ہوتا تھا، الیکشن میں لڑکے خوب گالیاں دے رہے ہیں۔ میں نے سوچا کے پروفیسر کے پاس تو عزت کے سوا کچھ نہیں ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہ ہو رہا ہے، بس وہ دن تھا کہ میں سوچا کہ ٹیچنگ اب نہیں کرنی۔
    جو بھی پہلی نوکری ملے گی میں اس پر چلا جاؤں گا۔ اسی دوران اشتہار آیا اور میں نے اس کے لیے اپلائی کر دیا اور وہ واحد ملازمت تھی جس کے لیے میں نے اپلائی کیا تھا۔ لیکن اس پر انہوں نے کسی اور کو رکھ لیا۔ کچھ دن بعد ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کوئی حکومت کی بات کی میں نے کہا کہ بھئی ہم نے تو درخواست بھی دی تھی لیکن ہمیں تو انہوں نے انٹرویو کے لیے بھی نہیں بلایا۔ اس کے کچھ دن بعد سیکرٹری کا فون آ گیا۔ دوبارہ انٹرویو ہوئے اور میں سلیکٹ ہو گیا اور اس طرح میں نیشنل سینٹر کا ڈائریکٹر رہا۔ پھر 1977 میں جب بھٹو صاحب اکیڈمی آف لیٹرز قائم کرنا چاہتے تھے تو میں اسلام آباد آ گیا۔ 1977 میں نے ایک نظم لکھی، فوج کے بارے میں ’پیشہ ور قاتلو‘۔ وہ بھٹو صاحب کا آخری زمانہ تھا لیکن فوج نے گرپ (گرفت) حاصل کر لی تھی اور فوج سٹوڈنٹس کو مار رہی تھی تو مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ مجھے انہوں نے دفتر سے گرفتار کیا حالانکہ میں ڈائریکٹر جنرل تھا۔ لیکن وہ آنکھوں پر پٹی وغیرہ باندھ کر لے گئے۔ مانسہرہ کیمپ۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ جب مجھے سپریم کورٹ نے رہا کیا تو انہوں نے مجھ پر کورٹ مارشل کے تحت مقدمہ چلانے کی کوشش کی۔ عدالت سے مجھے وہ سی این سی ہاؤس لے گئے وہاں ضیاء الحق تھا اور میرا ایک دوست وہ جنرل بنا ہوا تھا جنرل عارف۔ ضیاء الحق بھٹو صاحب کی اتنی تعریفیں کر رہا تھا کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ بس یہ سمجھیں کہ خدا کو اس نے معاف کیا باقی تمام پیغبروں سے وہ انہیں اونچا ثابت کر رہا تھا۔ یہ میں 30 جون کی بات کر رہا ہوں اور چار جولائی کو انہوں نے تختہ الٹنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مجھ سے انگریزی میں کہا کہ ’آپ کو وزیراعظم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مداخلت کر کے آپ کو بچایا‘۔ دوسرے دن میں دفتر گیا تو بہت فون آئے۔ اخبار میں آ گیا تھا کہ فوج نے فراز کے خلاف الزامات واپس لے لیے ہیں۔
    سوال: کیا آپ کو یہ نظم یاد ہے؟
    فراز: نہیں یاد نہیں ہے۔ وہ میں نے کہیں پڑھی بھی نہیں تھی۔ کہیں چھپی تھی اور لوگوں نے اس کی فوٹو کاپیاں کرا کے بانٹی تھیں۔
    ’پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں‘ یہ اس نظم کی آخری لائن تھی۔ خیر دفتر میں بھٹو صاحب کا فون بھی آیا۔ اس سے پہلے میری ان سے کوئی ملاقات نہیں تھی نہ ہی کبھی بات ہوئی تھی۔ ان کے ملٹری سیکرٹری نے کہا کہ وزیراعظم بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’فراز دس از می، دس ٹائم آئی سیوڈ یور لائف۔ دے وانٹ ٹو ٹرائی یو‘۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے کہا کہ آپ ان دو لوگوں سے انتہائی محتاط رہیے گا۔ انہوں نے پوچھا کن دو لوگوں سے میں نے انہیں بتایا کہ ایک تو جنرل ضیاء الحق سے اور ایک کوثر نیازی سے، میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپیں گے اور میں نے اس کی آنکھوں میں مکاری دیکھی ہے۔ انہوں نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی اور کہا کہ یہ کیا کریں گے ہمارا پی این اے سے معاہدہ ہو گیا ہے اور ہم اکتوبر میں انتخابات کرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاعری ہو گی؟ میں نے جواب دیا کہ شاعری تو ہو گی لیکن میں نہ تو جالب ہوں اور نہ جمیل الدین عالی۔




    ہم نے جس جس کو بھی چاہا
    سوال: کیا آپ کو شروع ہی سے ادیب اور شاعر بننے کا شوق تھا جیسے بچوں کو ہوتا ہے، ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بننے کا؟
    فراز: نہیں میں تو پائلٹ بننا چاہتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نویں دسویں جماعت میں ہمیں جس پہلی لڑکی سی فیسینیشن (رغبت) ہوئی اس کا بھائی پائلٹ تھا۔ اب یہ قصہ لمبا ہے لیکن وہ ایک وجیہہ آدمی تھا خاص طور پر وردی میں بہت ہینڈسم لگتا تھا۔ میں نے انٹرویو وغیرہ بھی دیا اور سلیکٹ بھی ہو گیا اور کال بھی آ گئی لیکن میری والدہ مخالف تھیں کیونکہ میرا بڑا بھائی فوج میں جا چکا تھا اور میری والدہ کا کہنا تھا کہ وہ سب بچوں کو ادھر نہیں بھیجنا چاہتی۔ تو ان کی چھٹی حس تھی جس کی بنا پر انہوں نے مجھے جانے نہیں دیا کیونکہ میرے ساتھ کے جتنے بھی لڑکے گئے وہ سب ہی مارے گئے کچھ ٹرینگ میں کچھ ویسے۔
    سوال: تو وہ پہلی خاتون تھیں؟
    فراز: ہاں وہ پہلی تھی۔ اور وہ مجھ پر کوئی تیس سال تک طاری رہی۔ حالانکہ یہ نویں دسویں کی بات تھی۔ خاص طور پر ہماری طرف جہاں پردہ وغیرہ بہت تھا اور میل جول بھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔ بہر حال اس کی شادی ہو گئی۔ وہ اس وقت دسویں میں تھی۔ پھر اس سے میری ملاقات تیس سال بعد ہوئی۔ او ہو ہو۔ مجھے اتنی مایوسی ہوئی اس سے مل کر۔ مجھ میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اب تو خیر میرا وزن بھی بڑھ گیا ہے لیکن تب تک میں بہت تبدیل نہیں ہوا تھا اور اس نے ساری باتیں کیں اس طرح کی مجھے شوگر ہے اور مجھے یہ ہے اور وہ ہے اور میں سوچ رہا تھا کہ چائے کی پیالی کب ختم ہو گی۔ مجھے اتنا افسوس اور دکھ ہو رہا تھا کہ کس کے لیے تیس سال کٹے۔
    سوال: بیچ میں کوئی نہیں آیا؟
    فراز: نہیں آتے رہے۔ میرا وہ شعر ہے نا:
    ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں وہ لوگ
    ٭ ٭ آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھا



    تخلیقی عمل: عشق ضروری ہے
    سوال: تخلیقی عمل کو آپ کیسے بیان کریں گے؟
    فراز: تخلیقی عمل کے حوالے سے پہلی چیز تو یہ ہے کچھ نہ کچھ پاگل پن تو اندر ہوتا ہے اور تخلیقی عمل کے لیے زندگی میں عشق بہت ضروری ہے۔ تو زندگی میں جتنی بھی آگے دھکیلنے والی چیزیں ہیں ان کے پیچھے یہی ہوتا ہے۔ اسے آپ عشق کہہ لیں، لگن کہہ لیں، جنون کہہ لیں، دیوانگی کہہ لیں، کچھ کہہ لیں۔ پھر جب آپ کی دلچسپی ہو جائے تو اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ سب کچھ آپ کو اوپر سے تحفتاً مل جائے۔ یہ ضرور ہے کہ رحجان ہوتا ہے لیکن اس کے لیے علم ضروری ہے ، تعلیم ضروری ہے، اس کے لیے تجربہ ضروری ہے۔ لوگوں میں شامل ہونا اور زندگی سے ڈرنا نہیں بلکہ اس کا سامنا کرنا۔ سب سے اہم ہے لوگوں میں شامل ہونا۔ کیونکہ آدمی کا درد کتنا بھی بڑا ہو، چھوٹا ہوتا ہے اور کتنی بھی بڑی اس کی خواہش ہو چھوٹی ہوتی ہے، اس لیے جب آپ لوگوں سے ملتے ہیں تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ ان کے دکھ تو بہت زیادہ ہیں اور اگر تب آپ میں تھوڑا سا بھی انصاف ہے تو آپ اپنے غموں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ تو ہم نے یہی سیکھا پڑھ کر بھی اور لوگوں سے مل جل کر بھی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ لوگ عشق بھی کرتے ہیں تو مانگے تانگے کا۔ تو سب سے بڑی بات ہوتی ہے اپنا تجربہ۔ اب میں نے دس کتابیں پڑھیں۔ غالب پڑھا، فیض پڑھا، قاسمی پڑھا اور ان کے عشق کے احساس کو دوبارہ بیان کر دیا تو یہ نہیں چلتا۔ آپ کو براہ راست اپنا تجربہ ہونا چاہیے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میری زندگی میں ایسے مواقع آتے رہے جو مجھے تحریک دیتے رہے، چاہے وہ جیل تھی یا ملک بدری تھی، چاہے جلا وطنی میں رہا، چاہے زندگی کے اور دکھوں میں رہا تو ایک اچھی زندگی گزاری۔ دھوپ بھی دیکھی چھاؤں بھی دیکھی لیکن اصل بات تو ہوتی ہے سوچ کا اخلاص (سنسیریٹی آف تھاٹ)۔ لیکن اس ملک کی خرابی یہ ہے کہ یہاں سے سچ کوچ کر گیا ہے اور جہاں سے سچ کوچ کر جائے تو پیچھے پیچھے جاتا ہے انصاف۔ اس کے بعد ڈمی رہ جاتی ہے اور ساری اقدار کی ایسی تیسی ہو جاتی ہے
    Last edited by Sultana; 19th December 2009 at 08:38 PM. Reason: font size

Similar Threads

  1. Hadees-11 MA BAAP KE AHME-AT
    By hafizbond in forum Sunnat aur Hadees
    Replies: 3
    Last Post: 19th March 2015, 01:19 PM
  2. See Faraz Ahmed Faraz
    By DeadMan in forum Photo Gallery
    Replies: 17
    Last Post: 25th October 2011, 09:29 PM
  3. Faraz
    By RASHID SAHIL in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 7
    Last Post: 14th June 2010, 11:06 PM
  4. Faraz!!
    By shahzadaa in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 13
    Last Post: 11th June 2010, 11:39 AM
  5. ~"A Classic Ghazal of FARAZ AHMED FARAZ~"
    By Desire.libra in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 11
    Last Post: 23rd October 2009, 03:18 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •