وسیلہ
التوسل ۔ لغۃً التقرب : وسیلہ کا لغوی معنی ہے قرب حاصل کرنا اور شرعًا جس چیز کے ذریعہ مطلوب کا قرب حاصل کیاجائے وسیلہ واسطہ اور سبب ہوتا ہے جو مراد تک پہنچا دے امام ابن اثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
الواسل الراغب والوسیلۃ القربۃ والواسطۃ وما یتوصل بہ إلی الشیئِ ویتقرب بہ ۔ (النہایۃ لابن الاثیر ج ۵/۱۸۵)
کہ وسیلہ قرب اور واسطہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ کسی چیز تک پہنچا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ قرب حاصل کیا جاتا ہے۔
القاموس المحیط میں ہے :
وسل إلی اﷲ توسیلاً عمل عملاً تقرب بہ الیہ (القاموس المحیط ج۴/۶۱۲ ۔ مادۃ وسل)
ایسا کام کرنا جس کے ذریعہ مقصود کا قرب حاصل کیا جائے ۔

قرآن کریم میں وسیلہ کا معنی( جو ہم نے وسیلہ کا لغوی معنی کیا ہے ) یہی معنی ہے جس کی سلف صالحین نے قرآن کریم میں وارد ہونے والے وسیلہ کی تفسیر کی ہے اور یہ اعمال صالحہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے معنی سے نہیں نکلے گا ۔
قرآن کریم میں وسیلہ کا ذکر دو آیتوں میں آیا ہے ۔
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲَ وَابْتَغُوْا إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ (سورۃ المائدۃ آیت ۳۵)
اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کی طرف نزدیکی کی جستجو کرتے رہو اور اس کی راہ میں جہاد کیا کرو تا کہ تمہارا بھلا ہو ۔

اُوْلٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ إِلیٰ رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا (سورۃ الإسراء آیت ۵۷)
جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید واری میں لگے رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہیں بات بھی یہی ہے کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے ۔

امام المفسرین حافظ ابن جریر رحمہ اللہ پہلی آیت کی تفسیر (اِتَّقُوا اﷲَ) میں فرماتے ہیں ۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ نے جو تم کو حکم دیا اور جس سے منع کیا ہے اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے ذریعے اس کو قبول کر لو ۔ اور (وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ )کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے والے اعمال سے اس کا قرب حاصل کرو ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وسیلہ کا معنی قرب نقل کیا ہے اور اسی طرح انہوں نے قتادۃ ‘ مجاہد ‘ عبداللہ بن کثیر ‘ سدی ‘ ابن زید رحمہم اللہ اور کئی دوسرے مفسرین سے یہی معنی نقل کیا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ اس معنی میں ائمہ مفسرین کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

وسیلہ وہ ہے جس کے ذریعہ مقصد اور مراد کو پہنچا جائے ۔دوسری آیت کے شان نزول کی مناسبت (جو وسیلہ کے معنی کو واضح کرتی ہے) کو جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے جن تو مسلمان ہو گئے تھے اور ان لوگوں نے جنوں کے پہلے والے دین کو پکڑ لیا ۔ (بخاری کتاب التفسیر ج۸/۳۹۷)

حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ جنوں کی عبادت کرتے رہے اور جن اس پر خوش نہیں تھے اس لئے وہ تو مسلمان ہو چکے تھے اور جن اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے تھے ۔ (فتح ا لباری ج۸/۳۹۷)

اس آیت کی تفسیر میں یہی قول معتبر ہے جیسا کہ امام بخاریؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؒ سے نقل کر کے اس پرصراحت کی ہے ۔

قرآن کریم کی آیت وسیلہ کو تقرب إلی اللہ کے معنی میں لینے پر صریح ہے اسی لئے تو یَبْتَغُوْنَ فرمایا یعنی جولوگ اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔

ان دونوں آیتوں میں وسیلہ کے معنی میں یہی تفسیرہم نے سلف صالحین سے نقل کی ہے اس پر لغت بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔

جن لوگوں نے ان دونوں آیتوں سے انبیاء علیہم السلام اور صالحین رحمہم اللہ کی ذات سے وسیلہ کے جواز پر استدلال کیا ہے تو ان کا یہ استدلال باطل ہے اور قرآن کریم کے اندر تحریف ہے اور لفظ کو اپنے ظاہری معنی سے پھیرنا ہے اور نص کو وہاں پر محول کرنا جس کا احتمال نہیں ہے ۔

سلف صالحین اور ائمہ مفسرین رحمہم اللہ جن کے اقوال کو معتبر سمجھا جاتا ہے میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وسیلہ وہ نیک عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اس نیک عمل کا شریعت کی رو سے معلوم ہونا ضروری ہے ۔

کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اعمال کا اختیار ہمیں نہیں دیا اور نہ ہی ان کی حد بندی کرناہماری عقلوں کے سپردکی ہے کیونکہ عقلیں مختلف اور جدا جدا ہوتی ہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اعمال میں اپنی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں چاہئیے کہ ہم اس معاملہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد اور اس کی تعلیم کی پیروی کریں اس لئے کہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کو کون سا عمل خوش کرتا ہے لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے وسائل کو پہچان لیں اور ہم اس مسئلہ میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کریں ۔

ہم نے پہلے ا س بات کی وضاحت کی ہے کہ عمل اس وقت تک قبول نہیں ہوتا جب تک خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور سنت کے مطابق نہ ہو ۔

اس قاعدہ کی نباء پر وسیلہ کی دو قسمیں ہیں ۔

1.شرعی وسیلہ
بدعت وسیلہ.2