قاتل کون تھا؟
عاقل خان کو پتہ تھا کہ اُسے اپنی بیوی کا قتل کرنا ہے۔ اِس کے علاوہ اور کیا چارا تھا۔ کم ازکم وہ اپنی
بیوی، زینب کے لیےاتنا تو کرسکتا عاقل خان کو پتہ تھا کہ اُسے اپنی بیوی کا قتل کرنا ہے۔ اِس کے علاوہ
اور کیا چارا تھا۔ کم ازکم وہ اپنی بیوی زینب کے لیےاتنا تو کرسکتا تھا۔

طلاق ناممکن تھی۔ اِس کےلیے اُس کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی۔ زینب حسین، نرم مزاج اور اچھی ساتھی تھی۔ اُس نے بیس سالوں میں کسی غیر مرد کی طرف نگاہ تک نہیں اُٹھائی تھی۔ یہاں تک کہ اُس نے آج تک کسی بھی طرح تنگ نہیں کیا تھا۔ وہ بہت اچھا کھانا بناتی تھی، لوڈو کےگیم میں ماہر تھی اوراُس کی مہمان نوازی محلے میں مشہور تھی۔
حیف صد حیف۔ اُسے زینب کی جان لینی ہوگی۔ وہ کبھی بھی اُس کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ زینب کی کتنی بدنامی ہوگی اور لوگ اُس پر انگلیاں اٹھائیں گے۔اُنہوں نےدو ماہ پہلے اپنی شادی کی بیسویں سالگرہ منائی تھی اور عزیز و احباب کے سامنے کہا تھا کہ اللہ کرے ان کی موت ایک ساتھ ہو۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ زینب کو چھوڑ دے۔
اُس کے بغیر زینب کی زندگی کیا ہوگی؟۔ سوائے کاریگری کئے ہوئےتانبےاور پیتل کے برتنوں کی دوکان جوگھر سے منسلک تھی۔ زینب کو دوکان داری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بس اُس کے بزنس کی وجہ سے کئی دنوں شہر سے باہر رہنا اور اکیلے پن زینب دوکان میں مصروف رکھتا تھا۔ دوکان کی وجہ سے محلے کے لوگوں سے بھی بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ اگر وہ زینب کوطلاق دے تو زینب کو سینما گھر کون لےجائےگا!۔ کبھی کبھی وہ ساحل سمندر پر چہل قدمی کرنا چاہتی ہے وہ کیسے کرے گی!۔ اُس کےجانے کے بعد محلے والے زینب سے ملنا چھوڑ دیں گے۔ طلاق شدہ عورت کو شادی شدہ عورتیں اپنےگھروں سے دور رکھتی ہیں تاکہ وہ ان کے شوہروں کو پھنسا نہ لیں۔
وہ زینب کا اس طرح کی زندگی بسر کرنا برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اُسے پتہ تھا کہ وہ اگر زینب سے طلاق مانگے تو وہ اتنی فرمانبردار تھی کی اُس کو خوش کرنے کےشاید اس پر بھی تیار ہوجائے۔ نہیں ۔۔۔ وہ زینب سے طلاق مانگ کر ذلیل نہیں کرے گا۔ اُسے کوئی اور ذریعہ تلاش کرنا ہوگا۔ کاش ایک سفر پر وہ فرزانہ سے نہیں ملا ہوتا۔ لیکن وہ کیوں اس خوش قسمتی پر افسوس کرے۔ اس دو ماہ میں اُس کی دنیا بدل گئ۔ اِس وقت کے مقابلہ میں زینب کے ساتھ ساری زندگی خاک تھی۔ فرزانہ سے ملنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ ایک اندھے کو آنکھیں مل گئی ہوں۔ وہ ساری زندگی بہرہ تھا مگراب وہ سن سکتا تھا اور نرالی بات یہ تھی کے فرزانہ بھی اُسے بےحد پسند کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اور کسی سے بندھی ہوئی بھی نہیں تھی۔ وہ انتظار میں تھی کہ عاقل کب زینب سے چھٹکارا لے اور وہ ان کی طلاق پر زور بھی دے رہی تھی۔ اُسے کوئی نہ کوئی ترکیب جلد سے جلد نکالنی ہوگی۔ شاید زینب کو ایک جان لیوا حادثہ پیش آسکتا ہے۔ دوکان ایک ایسی جگہ ہوسکتی ہے۔ دوکان میں چیزیں بےترتیبی سے رکھی ہیں۔ اوپری شیلف بھاری چیزوں سے لدے ہیں۔ جب زینب دوکان میں اکیلی ہو اس پر کوئی بھی بھاری چیزگر کر اُس کی جان لے سکتی ہے ۔ " تم اپنی بیوی کو ہمارے بارے میں کب بتاؤ گے۔ تمہیں اس کو طلا ق دو تاکہ ہم دونوں شادی کرسکیں “۔ فرزانہ نے مدہم ، پیاری اورمسمرانہ آواز میں سوال کیا۔ وہ اور فرزانہ ایک ریسٹورنٹ میں تھے۔ لیکن وہ زینب کو فرزانہ کے متعلق کیسے بتا سکتا تھا۔ اُسے تو فرازنہ کی خواہش بھی سمجھ نہیں آرہی تھی، زینب کے ساتھ بیس سال گزارنے کے بعد وہ اس سے یہ جاکر کہے کہ میں اور فرزانہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر زینب ماہرِخوش اسلوبی تھی تو فرزانہ بھی اپنی فصاحت میں کسی طور کم نہیں تھی ۔ فرزانہ ، زینب کی طرح خوبصورت یا دل آویز نہیں تھی۔ لیکن فرزانہ کی موجوودگی میں وہ آتش مزاج اور عاشق تھا۔ زینب کی موجودگی میں وہ خلیق اور بامروت شوہرتھا۔ فرزانہ کےساتھ اس کی خوشی اور جذبات آسمان کی بلندیوں کوچھوتے تھے۔ مگر زینب کےساتھ بیس سال رہنے کے بعد بھی اُس نے یہ بلندیاں حاصل نہیں کیں تھیں۔ فرزانہ زمین، ہوا، آگ اور پانی سب ہی تھی۔ زینب ۔۔۔ نہیں وہ زینب کے متعلق ایسا نہیں کہہ سکتا تھا۔ ان کو نسبت دینے کا کیا فائدہ۔ اُس نے ریسٹورنٹ میں ساجد کوداخل ہوتے دیکھا۔ ساجد یہاں کیا کر رہا تھا! لیکن کوئی بھی کہیں ہوسکتا ہے۔ اور یہ خطرہ ہر اُس شخص پر منڈلاتا ہے جو ناجائز رشتہ استوارکرتا ہے ۔کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں ہوتی۔ شاید وہ ایک دن پکڑے جائیں ۔۔۔ اور ساجد تو آخری شخص تھا جسے وہ یہاں دیکھنا پسند کرتا۔ ساجد کا اُس کو ایک عورت کےساتھ اکیلا دیکھنا ۔۔۔ وہ اس خبر کو ساری دنیا میں پھیلا دے گا۔وہ اُس کی بیوی، اُس کےدوستوں ، اُس کےڈاکٹر، اس کے وکیل، مطلب ہر سڑک پرملنے والے کوبتا دے گا۔ وہ ایک بڑے ستون کے پیچھے چھپ کر ساجد کےجانے کا انتظار کرنےلگا۔ ساجد نے ہیڈ ویٹر سے کچھ بات کہی اور ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا۔ ہمیشہ اس قسم کی صورت حال سے وہ بچے تھے۔ اور آج بھی ایسا ہوا۔ لیکن عاقل اس رشتہ کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا اس سے پہلے کہ اس کے دوست احباب اس رشتہ کو ایک ناجائزتعلقات کی نظردیکھیں۔وہ اس رشتہ کو شادی کرکےجائز بناناچاہتا تھا۔ مگر وہ زینب کو بھی دکھ نہیں پہچانا چاہتا تھا۔ ہر روز ہزاروں لوگ رات سونےجاتے ہیں اور صبح وہ بستر سے نہیں اٹھتے۔ زینب ان لوگوں میں سےایک کیوں نہیں ہوسکتی۔ وہ بغیر میرے اس کی جان لئے کیوں نہیں مرسکتی۔ جب وہ پھرفرزانہ سے ملا اورفرزانہ سے اپنے اندر اُٹھنے والی وہشت کا ذکر کیا ۔ توفرزانہ نے اُس سے کہا۔" یہ ماجرا وہی ثابت کرتا ہے جو میں تم سے بار بار کہہ رہی ہوں ۔ تمہیں زینب کو بتانا ہوگا۔ ساری زندگی ہم زینب سے یہ چُھپا نہیں سکتے“ ۔ " ہاں تم صحیح کہتی ہو۔ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا "۔ " تم کچھ نہ کچھ جلد از جلد کرو"۔ فرزانہ نے پیار سے کہا۔ عجیب بات ہے کہ زینب کی بھی عاقل جیسی حالت تھی۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس عمر میں
اسے عشق ہوجائےگا۔ بلکہ وہ یہ ہی سمجھتی تھی کہ اُسےاپنے شوہرسے بےحد محبت ہے۔ شاہد سےملنے سے پہلے وہ کتنی سادہ لوح تھی۔ ایک دن شاہد اس کی دوکان میں آیا۔ شاہد ایک مشاطہ تھا اور اپنے ایک آسامی کے لیے اُسے مغلیہ دور کی ایک صراحی کی ضرورت تھی۔ زینب نے دسویں صراحیاں دیکھائیں۔ مگر شاہد ایک سے بھی متاثر نہیں ہوا۔ زینب کو یاد آیا کے چند قدیم صراحیاں پیچھےاسٹور روم میں ہیں۔ ان کو باہرلانے کے بجائےاس نے شاہد کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ اندر پہونچنے کے بعد اس نے ایک صراحی کی طرف اشارہ کیا اور وہ شاہد کو یہ بتانے کے لئے مڑی کے اُسے یہ صراحی کیسے حاصل ہوئی تھی۔ شاہد نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر اس کے کندھوں پر رکھ دیئے۔ زینب کے کندھوں سے بجلی کی ایک لہر شروع ہوکراس کے سارے بدن میں دوڑگئی۔ " یہ آپ کیا کر رہے ہیں! ۔ بیرونی کمرے میں اور بھی خریدار موجود ہیں“۔ زینب نے کمزور آواز میں کہا۔ زینب کے ساتھ جو ہو رہا تھا اسےاس پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ اس کو نظر انداز بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اس بات کو بہت عرصہ ہوچکا تھا جب کہ عاقل نےاس کو اپنی باہوں میں لے کر پیار کیا ہو۔ وہ عموماً اس کےگالوں پر ایک ہلکا سے بوسہ دے دیتا تھا۔ اس ملاقات کے بعد جب کبھی عاقل اپنے بناؤٹی بزنس سفر پرجاتا، شاہد اور زینب اس اسٹور روم میں ایک دوسرے کی باہنوں میں کھوجاتے۔
اس طرح کے ایک دن وہ ان حسین لمحات میں جذب تھے کہ ایک آواز ان تک پہنچی ۔ مسسزخان ۔ آپ کیا اندر ہیں؟۔ مجھےاس تانبے کے تھال سے متعلق کچھ پوچھنا ہے“۔ زینب جلدی سے اپنے کپڑوں کوترتیب دیتے ہوے اسٹور روم کےاندھیرے سے باہر نکلی۔ اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کی۔ مگر اسے اندیشہ تھا کہ شاید اس کی لپ سٹک ہونٹوں کی حدود سے باہر ہو۔ یہ مسسز آغا تھیں جو ِادھر کی اُدھر لگانے کی ماہرتھیں۔ اگر مسسز آغا کوذرا سا بھی شک ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے تو اس سے پہلے کے سورج اپنا آدھا راستہ طے کرے، عاقل تو کیا، نکڑ کا ڈینٹسٹ ، ٹیکسی ڈرائیور، بک اسٹور کا مالک ، تمام محلے والے اور تمام فیملی فرینڈز کو پتہ چل جائے کےمسسز آغا نے زینب کو ایک غیر مرد کی باہنوں میں دیکھا۔ چاہئے ان کو صرف ایک کمرے میں دیکھا ہو۔ اس دن زینب کی قسمت کا ستارہ اس پر رحم کررہا تھا۔ مسسز آغا جلدی میں تھیں اور وہ ان مہمانوں کے متعلق سوچ رہیں تھیں جو ان کےگھر اس رات آنے والے تھے۔ اور وہ مہمانوں پرظاہر کرنا چاہتی تھیں کہ اس کے پاس خوب صورت کاریگری کردہ تانبے اور پیتل کے برتن ہیں۔ لہذا اُسے ایک رات کے لیے زینب سے کچھ تھال اُدھار لینے تھے۔

اس دن شاہد نے کہا ۔“ دیکھو زینب میں تم سےمحبت کرتا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ تم بھی مجھ سےمحبت کرتی ہو لیکن میں اب اس طرح سے تم سےنہیں مل سکتا۔ اگر ہم پکڑے گےتواس میں تمہاری بدنامی ہے۔ میں تم سے شادی کرناچاہتا ہوں۔ تمہیں اپنے شوہرسےطلاق لینی ہوگی“۔

شاہد طلاق کا اس طرح ذکر کر رہا تھا جیسے طلاق ایک ڈاکٹر کا اپونٹمنٹ تھا۔ ڈاکٹر کے آفس کو کال کردیا اور ایک وقت اور تاریخ مقرر کردی۔ وہ اس شخص کو کیسے طلاق کا کہہ سکتی تھی جو بیس سال سے شفیق، محبوب اور وفادار تھا؟ وہ عاقل سےاس کی خوشی کیسےچھین سکتی تھی؟ اگر کیسی وجہ سے عاقل کی موت ہوسکتی؟ کیوں نہیں اس کا ہارٹ فیل ہوسکتا؟ ہر روز سینکڑوں لوگ دل کے عارضہ کی وجہ سے مرتے ہیں۔ کیوں نہیں اس کا پیارا عاقل دم توڑ دے؟ اس سے کتنی آسانی ہوسکتی ہے!۔ اُسےاب ٹیلیفون کی گھنٹی سے بھی وہشت ہونے لگی۔ اور جب اس نے شاہد سے بات کرنے کے لیے ریسور اُٹھایا توشاہد نے غصہ سے کہا۔ " آج واقعی حد ہوگئی ۔ میں نے اپنے آپ کوایک گرا ہوا انسان محسوس کیا۔ جب تم باہرخریداروں سے تول مول کررہی تھیں۔ میں نےمحسوس کیا کہ میں ایک پنجرے میں ہوں اور دروازے بند ہے “۔ " پلیز تھوڑا انتظار اور کرلو۔۔۔ میں اس کا کچھ نہ کچھ حل نکالتی ہوں“۔ زینب نے کہا۔ " میں انتظار نہیں کرسکتا۔ اب فیصلہ تمہارا ہے"۔ شاہد نےسختی سے کہا۔
زینب کو پتہ تھا کہ جب شاہد ایک فیصلہ کرلیتا ہے تو اٹل ہوتا ہے۔ اگراس نےشاہد کو کھودیا تو زندگی ۔۔۔ یہ اس کی زندگی کا اختتام ہوگا۔ مگر وہ عاقل کو کیسے رد کر سکتی ہے۔ وہ شباب پرتھا۔ اور وہ اُس کی زندگی تھی۔ وہ اُسے ہرطرح سےخوش کرنا چاہتا تھا۔ ان کے شادی شدہ لوگوں کےعلاوہ کوئی دوست نہیں تھے۔ اگر وہ عاقل کو چھوڑ کرچلی گئی تو وہ گمنام زندگی بسر کرے گا۔ شادی شدہ دوست اس پر ترس کھا کر بلائیں گے۔ ہر شخص اس سے ہمدردی جتائےگا۔ مظلوم عاقل! وہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھےگا۔ نہیں وہ ایسا نہیں کرسکتی ۔کاش کہ شاہد سے اس کا ملنا نہ ہوتا۔
مگراب چند لمحہ شاہد کےساتھ ، عاقل کے زندگی بھر کےساتھ سے بہتر تھے۔ صرف ایک راستہ باقی تھا۔ عاقل کی موت۔ ایسی موت جو آرام دہ، جلد اثر اور گڈمڈ نہ ہو۔ مگر جلد ہی۔۔۔
اس رات جب عاقل سفرسے واپس ہوا تو زینب بنی سجی ملی اور ایک سیکنڈ کے لیےعاقل نےسوچا، زینب کےساتھ زندگی بُری نہیں۔ لیکن پھر اسےفرزانہ یاد آئی اور اس کواپنا فیصلہ یاد آیا۔ وہ فرزانہ کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کو زینب کی جان لینی ہوگی لیکن وہ اس موت کو زینب کے لیے آسان بنانا چاہتا تھا۔اور یہ عمل اس کو آج رات ہی کرنا چاہیے۔ اسے رات کا کھانا ایک اچھے شوہر کی طرح کھانا ہوگا۔ آخر اس سے ہمیشہ زینب کے کھانے کی تعریف کی ہے۔