نہیں ہے کوئی بھی ہم کو ترے سِوا معلوم
ہمیں تو صرف ہے اِک تُو ہی اے خدا معلوم

خدا کی ذات اگرچہ نہیں ہے نا معلوم
خدا ہے کیسا، کہاں ہے خدا، خدا معلوم

ہے کائنات کی رگ رگ سے صرف تُو واقف
ہر ایک ذرّہ کا تجھ ہی کو ہے پتا معلوم

خدا کے ذکر سے ملتی ہے روح کو تسکین
خدا کا ذکر ہے کیا چیز، تم کو کیا معلوم

وہ چاہتا ہے جو کرنا وہ کر کے رہتا ہے
جہاں کو چاہے بھلا ہو کہ ہو بُرا معلوم

یقین تجھ پہ ہے امید بھی تجھی سے ہے
خدا نہیں ہمیں کوئی بھی دوسرا معلوم

جو خیر چاہو تو اس پر نہ غور و فکر کرو
" نہ ابتدا کوئی اس کی نہ انتہا معلوم "

کرم نہ ہو اگر اس کا تو بالیقیں راغب
پتہ کسی کو ہو، منزل نہ راستہ معلوم