‎جب ہو کے صبا کوچۂ تعزیر سے
آئی
آواز عجب حلقہ زنجیر سے آئی
خوشبو کا دریچہ بھی کُھلا
رنگ کے ہمراہ
اک یاد بھی لپٹی ہوئی تصویر
سے آئی
گُل لے گئے عطّار ، ثمر کھا
گئے طائر
سُورج کی کرن باغ میں تاخیر
سے آئی
پہلے بھی کشش جلوئہ دُنیا
میں تھی لیکن
اس بار تیرے حُسن کی تاثیر سے
آئی
سادہ تھا بہت خوب تیرا چشمِ
تمنا
مشکل میں نظر کثرتِ تعبیر سے
آئی
یوں سارے چراغ اور گلاب اپنی
جگہ میں
رستے میں چمک سایہ رہگیر سے
آئی‎
پروین شاکر