آپ کا نام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس ہے آپ قریشی ہیں حضور علیہ الصلواۃ والسلام کے جد اعلٰی عبد مناف سے آپ کا نسب جا کر ملتا ہے ۔
آپ کی ابتدائی عمر علم و ادب تاریخ میں گزری ، آپ کی ولادت 150ھ میں ہوئی ۔
آپ کی فہم وذکاوت اور حسن استعداد کو دیکھ کر مسلم بن خالد زیخی نے آپ کو فقہ کی ترغیب دی ، آپ 13 سال کی عمر میں امام مالک علیہ الرحمۃ کے ہاں پہنچے تو اس وقت ان کی مؤطا حفظ کر چکے تھے ۔
آپ ایک دفعہ ہارون رشید ( خلیفہ ) پر طعن کرنے کے الزام میں گرفتار ہو کر آئے ، دربار میں امام محمد علیہ الرحمۃ موجود تھے اس الزام میں دو شخصوں کے سوا تمام لوگ قتل کر دئیے گئے ایک علوی دوسرے امام شافعی علیہ الرحمۃ ،علوی پر بھی الزام ثابت ہوگیا تو وہ بھی قتل کر دئیے گئے ، امام شافعی علیہ الرحمہ نے اپنی برآت بیان کی تو امام محمد علیہ الرحمۃ نے ان کی تصدیق فرمائی ، ہارون رشید نے امام محمد علیہ الرحمۃ کی تصدیق پر امام شافعی کو آزاد کردیا ، اس طرح وہ قتل سے بچ گئے گویا یہ امام محمد علیہ الرحمہ کا امام شافعی علیہ الرحمۃ پر بڑا احسان ہے نہ صرف ان پر بلکہ تمام شوافع پر تاقیامت کہ ان کی جان بچائی ، ( انوار الباری ج1،ص35)
نوٹ !
یہ امام محمد حضرت امام ابو حنیفہ کے شاگرد مشہور ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد بھی ہیں اور کافی مدت تک ان کے ز یر سایہ بھی رہے ۔
آپ اپنے ابتدائی علم کے حالات بتاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ابتداء زمانہ میں یہ حال تھا کہ استاد کو اجرت دینے کے لئے کچھ نہ تھا چنانچہ اس شرط پر کہ میں ان کے جانے کے بعد باقی شاگردوں کو دیکھا کروں گا علم حاصل کرنا شروع کیا قرآن پڑھنے کے بعد علم حدیث کے حلقوں میں بیٹھنا شروع کیا اور جو حدیث سنتا یاد ہو جاتی اس وقت میں کاغذ بھی نہیں خرید سکتا تھا اور چکنی ہڈیاں ڈھونڈتا اگر مل جاتیں تو ان پر لکھ کر انھیں گھر کے پرانے گھڑے میں احتیاط سے رکھ لیتا ۔
کسی نے حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میری بیوی کے پاس ایک کھجور تھی میں نے اس کو کہہ دیا کہ اگر کھجور کھائے تو بھی طلاق اور اگر نہ کھائے تو بھی طلاق ، بتائیں اب میں کیا کروں ؟
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں آدھی کھجور کھالے اور آدھی پھینک دے ۔
آپ کی وفات بعمر 54سال 204ھ میں ہوئی بعد وفات امام شافعی کو ربیع بن مرادی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا اللہ تعالٰی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا فرمایا ، مجھے ایک سنہری کرسی پر بٹھا کر میرے اوپر تازہ تازہ موتیوں کی لڑی بکھیری ۔( انوار الباری جلد 1 ص142)