فیشن شو اور کیٹ واک کے لیے ذولحج کا مقدس عشرہ ۔۔۔۔جنگ کالم ۔۔تحریر انصار عباسی
صحافی انصار عباسی (حفظ اللہ ) کیا یہ محض اتفاق ہے کہ فیشن شوز اور کیٹ واک کو ذوالحج کے مقدس مہینے کے پہلے عشرہ میں ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں منعقد کیاجاتاہے ۔رمضان المبارک کی طرح ذوالحج کے پہلے عشرہ کو اسلامی شریعت میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔عام دنوں کے مقابلہ میں ان مقدس ایام میں مسلمانوں کو اجروثواب کمانے اور آخرت میں جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچانے کےلیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسپیشل پیکج آفر کرتے ہیں مگر ہماری حالت دیکھیں کہ ہم اس خاص موقع پر فیشن شوز اورکیٹ واک کے نام پرعریانیت اور بے حیائی کا دھندا کرتے ہیں ۔دوسال قبل ذوالحج کے پہلے عشرہ میں ہی کراچی کے ایک ہوٹل میں فیشن شو منعقد کیاگیا جس کی ٹی وی چینلز نے خوب نمائش کی ۔نہ صرف ذوالحج کے تقدس کو پامال کیاگیا بلکہ پاکستان کی سماجی اور معاشرتی اقدار کو اس انداز میں روندا گیا کہ دیکھنے والوں کے سرشرم سے جھک گئے اور بہت سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کےلیے کس قسم کا پاکستان بنانے جارہے ہیں۔ اس سنگین مذاق پر میں نے 22 نومبر 2010(15 ذولحج 1431)کو ایک کالم بعنوان"اگر حیانہ رہے۔۔۔۔" لکھا جس کو قارئین نے بے پناسراہااور جس سے مجھے اندازہ ہواکہ ایسے بیہودہ کاموں کی نمائش سے عام پاکستانی بہت تکلیف محسوس کرتاہے ۔فحاشی و عریانیت کے موضوع اور اس سلسلے میں میڈیا کے منفی کردار پر بھی میں نے گاہے بگاہے کئی کالم لکھے جس کے نتیجے میں نہ صرف سپریم کورٹ میں اس مسئلہ کو اٹھایاگیا بلکہ قومی اسمبلی نے بھی ایک متفقہ قراداد کے ذریعہ فحاشی و عریانی کی روک تھام کےلیے حکومت سے مطالبہ کیاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تاکہ پاکستانی معاشرہ کی اسلامی اور سماجی اقدار کو پامال ہونے سے بچایا جاسکے ۔اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ بھی کیاگیا کہ وہ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی تشکیل دیں جو اس سلسلے میں حکومت کے لیے سفارشات بھی تیار کرے تاکہ پاکستانی معاشرہ کو عریانیت اور فحاشی جیسی لعنتوں سے بچایا جاسکے۔ مگر اس سب کے باوجود ماہِ رواں ذولحج کے پہلے عشرہ میں ایک بار پھر کراچی کے ایک ہوٹل میں فیشن شو منعقد کیاگیا اور تقریباًتمام ٹی وی چینلز نے روزانہ کی بنیاد پر اس فیشن شو کو دکھایا بھی ۔بعض اخبارات نے تو اس فیشن شو میں شرکت کرنے والی ماڈلز کی نیم عریاں تصاویر بھی شائع کیں ۔اس سب کےباجود تمام حکومتی ذمہ دار خاموش تماشائی بنے رہے ۔حکومت سندھ نے کوئی ایکشن لیانہ ہی کراچی کی انتظامیہ اور پولیس کے کانوں پر جوں تک رینگی ۔گویا اسلامی تعلیمات اورپاکستان کے آئین اور قانون کوکوئی اہمیت دی گئی نہ ہی حال ہی میں قومی اسمبلی میں پاس کی گئی متفقہ قرار داد پر کوئی عمل درآمدہوا۔بے حیائی اور عریانیت پھیلانے والے ریاست اور حکومت بھی طاقت ور ہوکر سامنے آئے ۔اور طاقت ور بھی اتنے کہ اپنے دھندے کے لیے مقدس ترین دنوں کا چناؤ کرتے ہیں اورکوئی ذمہ دار کچھ کرنہیں سکتا۔افسوس کامقام ہے کہ ٹی وی سکرینز پر بے ہودگی دیکھنے کے باوجود کسی نے اس کی مزمت کی اور نہ ہی کوئی احتجاج ہوا۔میں پہلے لکھ چکاکہ میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر دین کاایک مخصوص شعار ہوتاہے اور اسلام کا شعار"حیا" ہے ۔
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہماری اسلامی اقدار کو تباہ کیاجارہاہے اور ہماری نئی نسل کو ایسے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم بھی مغربی معاشرہ کی طرح جانوروں کی سی زندگی بسرکرناشروع کردیں جس میں حیانام کی کوئی شے باقی نہ بچے۔وہ زندگی جس میں حرام کے بچوں کی پیدائش ایسا معمول بن جائے کہ ان بچوں کو اپنےباپ کےنام تک پتانہ ہو اور ان کے جننے والیوں کو بھی معلوم نہ ہوکہ ان کے بچے کا باپ کون ہے ۔وہ زندگی جس میں بغیر شادی کےمرد اور عورت کا ساتھ رہنا رواج بن جائے اور شادی کرنا ایک ایک درد سر۔وہ زندگی جس میں ہم جنس پرستی یعنی عورت کا عورت اور مرد کا مرد کے ساتھ جنسی تعلق بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیاجائے۔پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ ایسی جانوروںوالی زندگی کو ترقی گردانتاہے ۔اس طبقہ خود کوئی حیاہے نہ شرم۔یہاں ایک بڑی تعداد ایسے افراد
کی بھی ہے جو پرائی عورتوں کو عریانیت اور فحاشی کےلیے معاشرہ کے سامنے پیش کرتے ہیں یا ان کو بڑے شوق سے دیکھنے کے لیےجاتے ہیں مگر اپنی ماؤں،بہنوں ،بیٹیوں اور بیویوں کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ نیم برہنہ ہوکر دوسرے مردوں کے سامنے کیٹ واک کریں۔ایسے افراد یادرکھیں کہ اگر ان کی یہ بے حسی اس طرح جاری رہی تو کل ان کی بیٹی کیٹ واک کررہی ہوگی اور تماش بین دوسرے ہوں گے یہاں تو ہمارے درمیان ایک ایسا ’’کُپی گروپ‘‘ بھی ہے جو فحاشی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا مذاق اڑاتاہے اور عریانی کے دفاع میں ایسی بے شرمی پر اترآیاہے کہ کوٹھوں کی گندگی کو بھی بڑی عزت اور شان سے یاد کرتاہے۔
Bookmarks