يوں دوست سارے اپنے اپنے رستے بدل گئے
کچھ پيچھے رک گئے تو کچھ آگے نکل گئے
حالات کے دھوپ ذرا سي دير کو تيز کيا ہوئي
جتنے وفا کے پیکر تھے سارے پگھل گئے
وعدوں کے تيرے راتوں سے باہر نا جا سکا
ارادوں کا دن نکلنے سے پہلے ہي ڈھل گيا
وفا ’ آن کے رنگ شبنم کے قطروں نے دھو ديا
محبت کے پھول جذبوں کے شدت سے جل گئے
طعنوں کے تير دنيا کي کمانوں پہ جب چڑھے
صبر کے دامن ہاتھوں سے ياک دم پھسل گئے
آنکھيں کھلي تو خوابوں کو برا لگا مگر
کچھ دير وہ رہ کر مضطرب خود ہي بہل گئے
پہلے پہل وہ عجيب لگے بدلے ہووے چہرے
پھر يوں ہوا کہہ وقت کے ساتھ ہم بھي سنبھل گے
Bookmarks