جامعہ دارالعُلوم کراچی، دینی درس گاہوں کے اس مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو اس برّصغیر میں اللہ کے کچھ نیک بندوں نے انگریزی استعمار کی تاریک رات میں دین کی شمعیں روشن رکھنے کے لئے قائم کیا تھا دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی رحمة اللہ علیہما اور ان کے رفقاءانگریز کے خلاف ۱۸۵۷ء کے جہاد میں بنفس نفیس شریک تھے۔ لیکن انگریز کے سیاسی اقتدار کے مستحکم ہونے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ اب محاذجنگ تبدیل ہوچکاہے، اب انگریز کی کوشش پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ ہے کہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر زیر کرنے کے بعدفکری طور پر بھی اپنا غلام بنایا جائے۔ جس کے لئے وہ ایک ایسا نظام رائج کررہاہے جو مسلمانوں کے دل پر مغربی افکار کا سِکہّ جمائے اس کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم کو سینے سے لگانے والوں پر معاش کے تمام دروازے بند کردےئے گئے تھے۔ اس لئے انہوں نے رُوکھی سوکھی کھاکر، اور موٹاجھوٹا پہن کر دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، اور ایسے سر فروش علماءکرام کی ایک بڑی جماعت تیار کردی جو دنیا کی چمک دمک سے منہ موڑ کر کچے مکانوں اور تنگ حجروں میں دینی علوم کے چراغ کو وقت کی آندھیوں سے بچاتے رہے، تاکہ اس سیاسی مغلوبیت کے دور میں مسلمان اپنی معاشرت، اخلاق، عبادت اور باہمی معاملات میں اسلامی احکام و اقدار کو چھوڑکر غیروں کے طریقوںکی تقلید نہ کرنے لگیں، اور پھر جب کبھی مسلمانوں کو سیاسی اقتدار واپس ملے تو انہیں سرورِ کونین، محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا لایاہوا دین اپنی صحیح شکل و صورت میں محفوظ مل جائے۔ اس طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا لگایا ہوا چمن جس پر خزاں نے ڈیرے جمالےے تھے، وہ دوبارہ سرسبز و شاداب ہونے لگا۔دارالعلوم دیوبند سے علم و فضل، علمی تبحر، اتباعِ سنت اور زہد و تقویٰ کے جو آفتاب و ماہتاب نمودار ہوئے ان کے پاکیزہ کردار سے صحابہ و تابعین کی حسین یادیں تازہ ہوگئیں، اور ان کی تعلیم و تبلیغ کے فیض سے برصغیر کا ہرگوشہ سیراب ہوا۔ ان کی علمی تحقیقات اور تربیت اخلاق سے شریعت و طریقت کی وہ گتھیاں حل ہوئیں جو مسلمانوں کے دورِ انحطاط میں عرصے سے سربستہ راز بنی ہوئی تھیں۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن صاحب قدس سرہ کی قیادت میں انہی علماءکرام کی مخلصانہ جدوجہدنے ہندوستان کو انگریز کی غلامی سے نجات دلانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔حکیم الامت، مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ کے ایماءپر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی صاحبؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحبؒ اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے قیامِ پاکستان کے لئے جو تاریخ ساز اور فیصلہ کن جدوجہد فرمائی وہ بھی اسی دارالعلوم دیوبند کا فیضان ہے۔پاکستان بننے کے بعد جب حکومت مسلمانوں کو ملی، مناسب یہ تھا کہ سب سے پہلے ایک اسلامی حکومت کے شایان شان ایسا نظام تعلیم رائج کیا جاتاجس میں قرآن و سنت کی پوری مکمل تعلیم کے ساتھ جدید علوم و فنون کو لادینی جراثیم سے پاک کرکے ان کی مکمل و معیاری تعلیم و تربیت ہوتی اور دینی و دنیوی تعلیم کی خلیج پاٹ دی جاتی، نہ یہاں دارالعلوم کی وہ حیثیت کافی تھی جو انگریز کے لادینی دور میں ہندوستان کے اندر مجبوراً رکھی گئی تھی اور نہ علی گڑھ کی محکومانہ تعلیم کی یہاں کوئی گنجائش تھی اور نہ ہی ندوة کی وہ تعلیم کافی تھی جس میں اسلامی علوم میں سے صرف تاریخ و ادب کو اسلامیات کا محور بنالیا گیاتھا، ضرورت اس کی تھی کہ دینی اور دنیوی دونوں قسم کی مکمل معیاری تعلیم و تربیت پورے ملک میں عام کردی جاتی، مگرپاکستان اپنی ابتداءسے لے کر آج تک مختلف پارٹیوں اور گروہوں کی رسہ کشی کے جس طوفان سے گزر رہاہے وہ سب کے سامنے ہے، اس طویل عرصے میں یہاں کا نظام حکومت اور قانون بھی صحیح معنی میں مسلمانوں کے دل کی آواز نہ بن سکا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک انگریز کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر یہاں کے اسکولوں، کالجوں کی تعلیم جاری ہے، جو علوم وفنون کے ماہرین پیداکرنے کے بجائے صرف دفتری ملازمین پیداکررہی ہے۔ اور وہ بھی نہایت ناقص انداز میں، اور دینی تعلیم و تربیت کا وہاں یا تو گزر نہیں، یاہے تو محض برائے نام۔اس کے علاوہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ علم، بالخصوص علمِ دین کے ساتھ جب تک اتباع سنت اور عظمت اسلاف کی روح نہ ہو، اور جب تک اس کے مطابق وضع قطع سے لے کر مزاج و انداز تک ہرچیز کی تربیت کا اہتمام نہ ہو، اُس وقت تک وہ علم خواہ تحقیق و ریسرچ کے جس بام کمال تک پہنچ جائے، اسلام کے نزدیک اس کی کوئی وقعت نہیں۔انگریزی نظام تعلیم نے ایک صدی سے زائد کے عرصہ میں دل و دماغ اس درجہ مسموم کر دئے ہیں کہ اگر بالفرض عام تعلیمی اداروں میں علوم اسلامیہ کی تعلیم کا انتظام ہو بھی جائے تو اتباع سنت، عظمت اسلاف اور ٹھیٹھ دینی تربیت کا وہ انداز جو اسلامی مدارس میں متوارث چلا آتاہے، اور ان مدارس کی حقیقی روح ہے اس کے ان جدید تعلیمی اداروں میں مکمل طور پر منتقل ہونے کے لئے بہت طویل اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہوگی جس میں کامیابی کے آثار مستقبل قریب میں نظر نہیں آتے اور جب تک عام تعلیمی ادارے اس ٹھیٹھ دینی مزاج و مذاق میں پوری طرح رنگ نہ جائیں، اس وقت تک ایک موہوم امید کے سہارے دینی تعلیم کو ملتوی نہیں کیاجاسکتا، اور جہاں ایسا کیا گیا ہے وہاں عوام کی دینی حالت کی ابتری کھلی آنکھوں سامنے ہے۔ اس لئے دین کی حفاظت کاجذبہ رکھنے والے علماءاور عوام نے پاکستان میں قدیم طرز کے اسلامی مدارس کا قیام اور ان کا جاری رہنا ضروری سمجھا۔

Name:  2126910360_cd7507b6d1.jpg
Views: 506
Size:  96.7 KB

Name:  30.jpg
Views: 540
Size:  156.4 KB

Name:  2126130651_4556d627fa.jpg
Views: 502
Size:  108.9 KB

Name:  2126131711_14c744f15d.jpg
Views: 814
Size:  115.3 KB

Name:  darul%20talba5[1].jpg
Views: 519
Size:  49.7 KB