اسلام و علیکم
جدہ سے ریلیٹڈ کچھ معلومات :۔
جدہ
جدہ ، ریاض کے بعد سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ رقبے کے اعتبار سے لاہور اور آبادی کے لحاظ سے فیصل آباد کے برابر ہے۔ سعودی عرب کے مشرق و مغرب دونوں جانب سمندر لگتا ہے۔ مشرق میں خلیج فارس ہے جس کی سب سے بڑی بندرگاہ دمام ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر یا ریڈ سی ہے جس کی سب سے بڑی بندرگاہ جدہ ہے۔ جدہ کی بندرگاہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور سے حجاج کی آمد و رفت کے لئے استعمال ہوتی آرہی ہے۔ قدیم دور میں یہ ایک مچھیروں کی بستی تھی جہاں اس دور کے چھوٹے موٹے جہاز اور کشتیاں لنگر انداز ہوتے تھے۔ اب یہ ایک جدید بندرگاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے جو حجاج کی آمدو رفت کے باعث "مینا جدۃ الاسلامی " کہلاتی ہے۔
جدہ شہر شمالا ً جنوباً تیس چالیس کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ شرقاً غرباً اس کا پھیلاﺅ بمشکل دس بارہ کلومیٹر ہے۔ شہر کے مشرقی کنارے پر پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایک روڈ جنوب سے شمال کی طرف چلتی ہے جسے رنگ روڈ کہا جاتا ہے۔ جنوب مشرق میں یہ مکہ ، طائف اور ریاض کی طرف چلی جاتی ہے جبکہ شمال مشرق میں یہی روڈ جدہ ائر پورٹ سے ہوتی ہوئی سوئے مدینہ رواں دواں ہوتی ہے اور آگے جاکر تبوک اور پھر اردن تک جاتی ہے۔ اسی روڈ پر جدہ ائر پورٹ کا حج ٹرمینل بھی ہے جہاں سے عازمین مکہ یا مدینہ کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ جدہ سے تیسری سڑک جنوب میں جازان کی طرف نکلتی ہے۔ یہ گاڑیوں کی سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ ”ہراج “ سے ہوتی ہوئی لیث اور پھر آگے ابہا اور جازان کی طرف چلی جاتی ہے۔ آگے یہی روڈ یمن کے دارلحکومت صنعاء تک جاتی ہے۔
حج ٹرمینل
جدہ میں رہنے والی اقوام
جدہ میں سب سے زیادہ آبادی تو سعودی باشندوں کی ہے۔ اس کے بعد دیگر عرب ممالک کے باشندے بالخصوص مصری ، اردنی اور لبنانی یہاں کثرت سے آباد ہیں۔ غیر عرب ممالک سے تعلق ریکھنے والی سب سے بڑی کمیونٹی بھارتی مسلمانوں کی ہے ۔ اس کے بعد پاکستانیوں اور بنگالیوں کا نمبر آتا ہے۔ دیگر کمیونیٹیز میں سوڈانی، فلپائنی اور ایتھوپین نمایاں ہیں۔
سعودی عرب میں زیادہ تر پاکستانی محنت مزدوری کرتے ہیں۔ وائٹ کالر ملازمتوں میں بھی کافی پاکستانی پائے جاتے ہیں۔ دفاتر میں اعلیٰ عہدوں پر زیادہ تر سعودی، مصری ، لبنانی اور انڈین افراد کام کرتے ہیں۔ بہت ہی قلیل تعداد میں امریکی اور یورپی افراد بھی اعلیٰ ترین عہدوں پر کام کرتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے یہاں کی 99 فیصد آبادی مسلمان ہے کیونکہ سخت مذہبی پابندیوں کے باعث غیر مسلم یہاں رہنا پسند نہیں کرتے اور عرب امارات اور کویت وغیرہ کو ترجیح دیتے ہیں۔
جدہ میں پاکستانی زیادہ تر شرفیہ، بنی مالک اور عزیزیہ کے علاقوں میں رہتے ہیں۔ پڑھے لکھے پاکستانی عزیزیہ میں رہتے ہیں کیونکہ یہیں پر پاکستان ایمبیسی سکول کے علاوہ دیگر پاکستانی اور انڈین سکول پائے جاتے ہیں۔ شرفیہ اور بنی مالک کے علاقوں کو اپنے ہاں کے کورنگی، لانڈھی اور مزنگ پر قیاس کر لیجئے۔ یہاں زیادہ تر بلیو کالر ملازمتیں کرنے والے پاکستانی رہتے ہیں۔سعودی عرب میں غیر ملکیوں کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں۔ عام طور پر غیر ملکی کسی سعودی کے نام سے کاروبار کرتے ہیں۔ اگر وہ کوئی شریف اور دیانتدار شخص ہو تو ٹھیک ہے ورنہ بعض لوگ اس میں نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔
یہاں کی انڈین کمیونٹی زیادہ تر کیرالہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ ان کی اپنی تلگو اور ملیاڑم زبانیں ہیں اور یہ خود کو عام انڈین شہریوں سے ہٹ کر محسوس کرتے ہیں۔ ہندی یا اردو یہ عرب ممالک میں آ کر سیکھتے ہیں۔ یہ بڑی محنتی کمیونٹی ہے۔ سعودی عرب میں زیادہ تر جنرل سٹورز یا بقالے انہی کی ملکیت ہیں۔ بھارت کے دوسرے علاقوں سے آنے والے بھی زیادہ تر مسلمان ہی ہیں اور پاکستانیوں کے بارے میں مثبت طرز عمل ہی رکھتے ہیں۔
بلیو کالر ملازمتیں زیادہ تر بنگالی حضرات کے پاس ہیں۔ یہ بھی پاکستانیوں سے بڑی محبت کرتے ہیں جو ان کے رویوں سے چھلکتی ہے۔
دفاتر اور ہسپتالوں میں نچلے عہدوں پر بہت سے فلپائنی بھی کام کرتے ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ اور محنتی قوم ہے۔ ان کے زیادہ تر مرد موٹر مکینک اور خواتین نرس ہوتی ہیں۔
یہاں دفاتر میں مصری بکثرت پائے جاتے ہیں۔ عرب ممالک میں مصر ایک غریب ملک ہے اور یہاں تعلیم کی فراوانی ہے ، اس لئے یہ لوگ دفتری کام کر لیتے ہیں اور عربی بھی بول لیتے ہیں۔ مجھے مصری بالکل لاہوریوں بالخصوص 'بٹ برادری' کی طرح لگے۔ یہ لاہوریوں کے الفاظ میں انہی کی طرح صحت مند ہوتے ہیں۔ انہی کی طرح خوش شکل، خوش مزاج اور خوش خوراک ہوتے ہیں۔ پہلی ملاقات میں اس طرح ملتے ہیں جیسے برسوں سے واقف ہوں۔ جو سلوک ہمارے لاہوڑیے (اسے کمپوزنگ کی غلطی نہ سمجھا جائے) ’ر‘ اور ’ڑ‘ کے ساتھ کرتے ہیں ، وہی سلوک مصری ’ج‘ اور ’گ‘ کے ساتھ کرتے ہیں۔ جیسے ’لاہوری بکرا‘، ہمارے لاہوریوں کے نزدیک ’لہوڑی بکڑا ‘ ہوتا ہے ، اسی طرح ’جعفر، جاویداور جدہ ‘، مصریوں کے نزدیک ’گعفر، گاوید اور گدہ ‘ہوتے ہیں۔
دیگر عرب کمیونیٹیز میں شامی اور لبنانی شامل ہیں۔ یہ لوگ عموماً بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ افریقی عرب بھی یہاں کثرت سے آباد ہیں ۔ زیادہ تر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ کھیلوں کے میدان میں افریقی یہاں بھی آگے ہیں اور سعودی فٹ بال ٹیم میں بہت سے افریقی کھلاڑی شامل ہیں۔ بعض افریقی جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں ، اس لئے لوگ ان کے علاقوں میں ڈرتے ہوئے جاتے ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت اپنی بڑھتی ہوئی بے روزگار نوجوان آبادی کو روزگار فراہم کرنا چاہتی ہے۔اس مقصد کے لئے تمام سرکاری اداروں میں نئے ملازم صرف سعودی رکھے جاتے ہیں۔بینکوں پر بھی یہ پا بندی ہے کہ وہ صرف سعودی ملازم رکھیں گے۔ ان دنوں غیرملکیوں کے لئے نئے ویزوں کا اجرا بھی کافی کم کر دیا گیا ہے۔ کمپنیوں کو بھی اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ اگر ایک غیر سعودی کو ملازم رکھیں تو اس کے ساتھ ایک سعودی کو بھی ملازمت دیں۔
جدہ کا سٹی سینٹر ”بلد“ کہلاتا ہے۔ یہ پرانا شہر ہے اور یہاں خاصی پرانی عمارتیں موجود ہیں۔ یہ ہمارے کراچی کے صدر اور لاہور کی انارکلی کی طرز کا علاقہ ہے۔ یہاں جہاں آپکو پرانی طرز تعمیر دیکھنے کو ملے گی وہی جدید بلندو بالا عمارتیں بھی ۔ جدید اور قدیم عمارتوں سے ملا جلا یہ علاقہ نہایت خوبصورت ہے ۔ بلد پاکستانی صدر کی طرح ایک فل کمرشل ایریا ہے جہاں نیشنل اور انٹرنیشنل کمپنیز کے دفاتر اور شاپنگ سینٹر موجود ہیں - یہاں سے مکہ اور مدینہ جانے والی قدیم شاہراہیں نکلتی ہیں۔ بلد سے مدینہ جانے والی قدیم شاہراہ شہر کے بیچوں بیچ گزرتی ہوئی ایئر پورٹ سے ہوتی ہوئی شمال مشرق میں مدینہ کی طرف روانہ ہوتی ہے۔ ائر پورٹ سے پہلے اس شاہراہ پر دنیا بھر کی گاڑیوں کے شو رومز ہیں۔ ایئر پورٹ کے سعودی ایئر لائن والے ٹرمینل کے پاس فلائی اوورز کا بہت بڑا جنکشن ہے۔ یہاں چار سمتوں سے آنے والی روڈز پر فلائی اوورز اس طرح تعمیر کئے گئے ہیں کہ کسی بھی جانب سے آ کر کسی بھی سمت جانے کے لئے سگنل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ سیٹلائٹ تصاویر میں یہ مقام سانپوں کے بڑے سے گچھے کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ جدہ کے مشرق سے آنے والی رنگ روڈ بھی ایئر پورٹ کے پاس مدینہ روڈ میں مل جاتی ہے۔
بلد
جدہ کے ریسٹورنٹس
جدہ کا ذکر مکمل نہ ہوگا اگر اس کے ریسٹورنٹس کا ذکر نہ کیا جائے۔ چونکہ یہ ایک کاسمو پولیٹن شہر ہے، اس لئے اس میں بہت سے ممالک کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ ایسے افراد کو، جو انٹرنیشنل کھابہ گیری کے شوقین ہوں، میرا مشورہ ہے کہ اگر وہ یہاں آئیں تو جدہ کے کثیر القومی ریستورانوں کا مزہ بھی ضرور چکھیں۔ یہاں سعودی، لبنانی، انڈونیشین، وسطی ایشیائی، ایرانی، امریکی، یورپین، انڈین اور پاکستانی ریسٹورنٹس کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
سعودی عرب کا سب سے زیادہ چلنے والا فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ”البیک“ ہے۔ ہر وقت یہاں افراد کا مجمع لگا رہتا ہے۔ بعض جگہ اس کے بالکل سامنے یا ساتھ ”کے ایف سی“ بھی پایا جاتا ہے جو عموماً خالی پڑا رہتا ہے۔ اگر آپ البیک میں جا کر آرڈر بک کروائیں تو آپ کو تیس چالیس افراد کے بعد کا نمبر ملتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کی باری دس منٹ ہی میں آ جاتی ہے۔ مجھے البیک کا شرمپ (جھینگا) سینڈوچ بہت پسند آیا۔
جدہ کی ”سبعین اسٹریٹ“ کو یہاں کی فوڈ اسٹریٹ کہا جاسکتا ہے۔ یہاں آپ کو ہر قسم کے ریسٹورنٹس ملیں گے۔ خاص طور پر زیادہ تر پاکستانی ریستوران یہیں پر واقع ہیں جہاں تمام روایتی پاکستانی کھانے دستیاب ہیں۔
جدہ کا ساحل
بحیرہ احمر کا ساحل تقریباً دو ہزار کلومیٹر طویل ہے جس کا سترہ سو کلومیٹر حصہ سعودی عرب اور باقی یمن کے پاس ہے۔ یہاں جدہ کے علاوہ ینبع، جازان اور ضباء کی بندرگاہیں بھی ہیں۔ اس ساحلی پٹی کے تقریباً وسط میں جدہ کا شہر آباد ہے۔ یہ اگرچہ ایک جدید شہر ہے لیکن مشرق وسطی کے دیگر بڑے شہروں ریاض، دبئی اور کویت جیسا ترقی یافتہ نہیں ہے۔ سڑکیں ہمارے کراچی سے زیادہ کھلی ہیں لیکن سگنلز کی بھرمار ہے۔ شہر میں صرف تین سڑکیں ایسی ہیں جنہیں سگنل فری کہا جاسکتا ہے۔
کورنیش
جدہ کی خوبصورتی اس کی ”طریق کورنیش“ ہے۔ یہ تقریباً دو سو کلومیٹر طویل ساحلی سڑک ہے جو جدہ کے شمال و جنوب میں سو سو کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ کورنیش ساحل سمندر کے بالکل ساتھ ساتھ ہے۔ جدہ کے شمال میں ’ابحر“ کا مقام ہے جہاں ایک بہت بڑی خوبصورت کریک موجود ہے۔ اس میں لوگ ذاتی کشتیاں اور واٹر سکوٹر چلاتے پھرتے ہیں۔ دنيا كا بلند ترين فواره اسی ساحلی پٹی پر واقع ہے۔ عربوں کی ایک عجیب عادت یہ ہے کہ انہیں جو مقام پسند آئے وہاں گاڑی روک کر اس میں سے قالین نکالتے ہیں اور اسے فٹ پاتھ پر بچھا کر پوری فیملی سمیت گاﺅ تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ چنانچہ کورنیش کے اکثر فٹ پاتھوں پر سعودی فیملیاں بیٹھی نظر آتی ہیں۔ ان کے بچے وہیں کھیلتے ہیں، خواتین باتیں کرتی ہیں اور مرد تاش کھیلتے ہیں یا حقہ پیتے ہیں۔ابحر سے آگے ”درة العروس“ کا مقام ہے۔ یہاں بہت بڑے بڑے محل تعمیر کئے گئے ہیں جن کے ذاتی ساحل ہیں۔ ان ساحلوں میں کوئی اور مداخلت نہیں کرسکتا۔ یہ محلات لوگوں کو کرائے پر دیے جاتے ہیں۔ ان کا کم از کم یومیہ کرایہ 1500 ریا ل ہے۔ ان ساحلوں پر خواتین بے پردگی کے بغیر لہروں سے لطف اندوز ہو سکتی ہیں۔
مظفر حسین
Bookmarks